جسٹس افتخار چودھری پاکستان کی سیاسی سمت بدلنا چاہتے ہیں


کسی بھی ملک میں کبھی ایسا شخص پیدا ہوتا ہے جو دیش کی سیاست کو بدلنے کی طاقت کا اظہارکرتا ہے۔ پختہ عزم سے وہ ایسے حوصلہ افزاء قدم اٹھاتا ہے جس سے دیش کی سیاست کو نئی سمت ملتی ہے۔ پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چودھری اسی لائن میںآتے ہیں۔ انہوں نے محض پاکستان کی سپریم کورٹ کو اس کے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کیا ہے بلکہ کئی ایسے معاملوں میں مداخلت کی ہے جنہیں پہلے کسی نے چھونے کی ہمت نہیں کی تھی۔ بیشک ان میں سے کچھ متنازعہ معاملے بھی ہوسکتے ہیں۔ تازہ معاملہ پاکستانی فوج اور اس کی خفیہ برانچ آئی ایس آئی کی دیش کی سیاست میں مداخلت ہے۔ چیف جسٹس افتخار چودھری کی سربراہی والی ڈویژن بنچ نے جمعہ کو سرکار کے سابق فوج کے سربراہ جنرل مرزا اسلم بیگ اور سابق آئی ایس آئی چیف اسد درانی کے خلاف 1990ء میں ہوئے انتخابات میں دھاندلی کے لئے سیاستدانوں کو لاکھوں روپے کی ادائیگی میں ان کے رول کے لئے قانونی کارروائی کرنے کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس افتخار چودھری کی رہنمائی والی تین نکاتی ڈویژن بنچ نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ فوج کو پاکستان کی سیاست میں دخل دینے کی عادت سے باز آنا چاہئے۔1996ء میں دائر ایک عرضی ایئر فورس کے ایک ریٹائرڈ ایئر مارشل نے دائر کی تھی۔ جسٹس چودھری نے کہا کہ اس طرح کے اداروں کی سیاست یا سیاسی سرگرمیوں ، سرکار کی تشکیل یا حکومتوں کے استحکام میں کوئی رول نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا فوج اور خفیہ ایجنسیوں کو کسی بھی صورت میں کسی خاص سیاسی پارٹی یا سیاستدانوں کی طرف جھکاؤ نہیں دکھانا چاہئے۔ حالانکہ ابھی یہ واضح نہیں ہوپایا کہ اس سسٹم سے فوج کے اختیارات محدود ہوں گے یا نہیں لیکن اس سے فوج عدالت کے درمیان ٹکراؤ کا اندیشہ ضرور بڑھ گیا ہے۔ اس معاملے میں چیف جسٹس کی ڈویژن بنچ نے سابق فوج کے سربراہ جنرل مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق چیف اسد درانی کے خلاف قانونی کارروائی کے احکامات دئے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ 1990 ء میں عام چناؤ میں دھاندلی کے مقصد سے دونوں نے کروڑوں روپے بانٹ کر آئین اور قانون کی خلاف ورزی کی تھی۔ ان کے قدموں سے دیش اور مسلح افواج کی ساکھ خراب ہوئی ہے۔ یہ فیصلہ دیش کی سیاسی تاریخ کو بدل سکتا ہے۔ انگریزی اخبار’ ڈان‘ کے مطابق یہ فیصلہ صدر کے دفترمیں ہونے والی سیاسی سرگرمیوں کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کرسکتا ہے۔ ایک اور انگریزی اخبار’دی نیوز‘ نے خبر دی ہے کہ سپریم کورٹ کے سسٹم نے زرداری کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بنے رہنے یا اپنی سیاسی سرگرمیوں کو جاری رکھنا ناممکن بنا دیا ہے۔ اپنے فیصلے میں بنچ نے ساتھ ہی یہ بھی کہا صدارتی محل آئی ایس آئی، فوجی خفیہ یا خفیہ بیورو میں کام کررہی کسی بھی سیاسی یونٹ کو فوراً بند کردیا جائے کیونکہ ایسی کوئی بھی انجمن غیر آئینی ہے۔ بنچ کا کہنا ہے ایسی کسی یونٹ کی تشکیل کے لئے جاری کوئی بھی نوٹی فکیشن ناقابل تسلیم ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہے پاک فوج کیا اس فیصلے پر عمل کرے گی؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟