اور اب شرد پوارو منموہن سنگھ کی باری
چاروں طرف سے حملوں سے گھرتی یوپی اے سرکار اور کانگریس پارٹی کو کوئی امید کی کرن فی الحال نظر تو نہیں آرہی ہے۔ تازہ حملہ کانگریس کی یوپی اے سرکار کو حمایت دے رہی این سی پی کے چیف شرد پوار پر ہواہے۔ ایک سابق آئی پی ایس افسر و اروندکیجریوال کے ساتھی رہے وائی پی سنگھ نے الزام لگایا ہے کہ انہوں نے مہاراشٹر کے لواسا پروجیکٹ میں گڑ بڑی کرنے میں مرکزی وزیر شرد پوار کا پورا خاندان شامل ہے۔مسٹر سنگھ مہاراشٹر کیڈر کے1985ء بیچ کے افسر رہے ہیں۔ وہ فی الحال وکالت کررہے ہیں، کا دعوی ہے کہ 2002ء میں 348 ایکڑ زمین لیک سٹی کارپوریشن کو30سال کے لئے پٹے پر دی گئی۔ یہ کمپنی ہندوستان کنسٹرکشن کی معاون کمپنی ہے۔ زمین الاٹ کرنے کا کام شرد پوار کے بھتیجے اور مہاراشٹر کے اس وقت کے وزیر آب پاشی اجیت پوار نے کیا تھا۔ پوری زمین لواسا کو 23 ہزار روپے فی ایکڑ ماہانہ کے حساب سے 30 سال کے لئے پٹے پر دی گئی۔ جب زمین ٹرانسفر کی گئی تو پوار کی بیٹی سپریہ اور ان کے شوہر سدانند کو لواسا لیک سٹی کو 10.4 فیصدی شیئر ملے۔2006ء میں سپریہ اور سدانند نے اپنے20.8 فیصد شیئر بیچ دئے۔ اس حساب سے سپریہ کو اپنے حصے کے 10.4 فیصد شیئر بیچنے کے لئے ان کو500 کروڑ روپے ملے۔ شرد پوار نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور سرے سے مسترد کردیا ہے۔ معاملہ عدالت میں چل رہا ہے ۔ امید ہے کہ عدالت میں دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔ دوسرا معاملہ خود وزیر اعظم کو لیکر ہے۔ یہ معاملہ گھوٹالوں کا تو نہیں لیکن الزام انتہائی سنگین ہے۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ کے سابق کیبنٹ سکریٹری کے این چندرشیکھر نے ٹو جی اسپیکٹرم گھوٹالے کی جانچ کررہی جے پی سی کے سامنے پیش ہوکر منموہن سنگھ کو ہی کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کو انہوں نے بازار قیمت 35 ہزار کروڑ روپے پراسپیکٹرم نیلامی کی صلاح دی تھی۔ وزیر اعظم نے اس صلاح کو نظرانداز کردیا۔ چندر شیکھر نے خلاصہ کیا ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم کو خط لکھ کر اسپیکٹرم الاٹمنٹ کو اینٹری فیس بازار کے دام پر دینے کی سفارش کی تھی اگر ان کی یہ رائے مانی گئی ہوتی تو دیش کے خزانے کو کئی ہزار کروڑ روپے کا منافع ہوتا۔ سابق کیبنٹ سکریٹری کے ذریعے تجویز الاٹمنٹ کی قیمت سے قریب21 گنا زیادہ ہے۔ یہ ہی نہیں چندر شیکھر نے جے پی سی میں یہ بھی کہا کہ 2008ء میں اسپیکٹرم کی نیلامی یقینی بنانے میں ناکامی کیلئے پی چدمبرم بھی ذمہ دار تھے۔ 2011ء کے متنازعہ نوٹ کے پیچھے اس وقت کے وزیر خزانہ پرنب مکھرجی کا کردار تھا۔ پی ایم او کو وزارت مالیات کے ذریعے بھیجے گئے خط میں کہا گیا تھا کہ الاٹمنٹ کے وقت وزیر خزانہ پی چدمبرم’ پہلے آؤ پہلے پاؤ‘ کی پالیسی کے بجائے نیلامی کی کارروائی اپنانے پر زور دے سکتے تھے۔ چندر شیکھر کی تحریری سفارش کو نظرانداز کرنے کا دیش کو بہت بھاری نقصان ہوا ہے۔ ان کی سفارش نہ ماننے سے سرکار کے خزانے کو 1 لاکھ76 ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ کیا وزیر اعظم اور اس وقت کے وزیر خزانہ اس کے لئے براہ راست ذمہ دار نہیں ہیں؟ کیبنٹ سکریٹری کو دیش کے افسر میں سب سے سینئر مانا جاتا ہے اگر وہ ایسا سنگین الزام لگائے تو اس کا دیش جواب چاہتا ہے۔ محض تردید کرنے ، صفائی دینے سے بات نہیں بنے گی۔ وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کو دیش کے سامنے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ جو الزام چندر شیکھر لگا رہے ہیں وہ غلط ہیں اور غلط کیوں ہیں ۔ اپنی دلیلوں کو ثابت کرنے کے لئے انہیں دستاویزی ثبوت پیش کرنے ہوں گے۔ ویسے تو یہ معاملہ عدالت میں چل رہا ہے۔ عدالت شری چندر شیکھر کے بیان کو سنجیدگی سے لے گی اور مناسب کارروائی کرے گی۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے جو الزام اپوزیشن وزیر اعظم، وزیر خزانہ پر لگاتی آئی ہے وہ صحیح ہیں۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں