کیا بینکوں کے قرض وصولی میں کبھی کامیابی ملے گی

بینکوں کے پھنسے قرض (ایم پی اے) کی وصولی پر سپریم کورٹ کی سختی کا خیر مقدم ہے۔ کورٹ نے قرض وصولی ٹریبیونل (ڈی آر ٹی) میں ڈھانچہ بند وسائل کی کمی پر سرکار سے سوال کئے ہیں۔ عدالت نے پوچھا ہے کہ کیا موجودہ وسائل میں طے میعاد کے اندر قرض وصولی کی نشانہ حاصل کیا جاسکتا ہے؟ کورٹ نے سرکار سے قرض وصولی کی ساری مشینری کی جانکاری مانگی ہے۔ اس کے علاوہ قرض وصولی کے پرانے التوا میں پڑے معاملہ اور 500 کروڑ روپے سے زیادہ کی دیندار کمپنیوں کی فہرست بھی پیش کرنے کو کہا ہے۔وصولی کے معاملوں کے جلد نپٹارے کے لئے ٹریبیونل تشکیل ہونے کے باوجود مقدمہ برسوں سے التوا میں ہونے پر بھی عدالت نے سوال اٹھائے ہیں۔ ڈی آر ٹی کی تشکیل کے پہلے ستمبر 1990 ء تک عدالتوں میں قرض وصولی کے قریب15 لاکھ مقدمے التوا میں تھے۔ ان میں بینکوں کا 5622 کروڑ و مالیاتی اداروں کا 391 کروڑ کی رقم پھنسی تھی۔ 1993ء میں ڈی آر ٹی ایکٹ بنا اور ٹریبونل قائم ہوئے۔ دیش بھر میں 34 ڈی آر ٹی اور 5 اپیلیٹ ٹریبونل ہیں ان میں 2015-16ء میں 34ہزار کروڑ کی رقم سے وابستہ قریب16 ہزار معاملہ نپٹے۔ سپریم کورٹ نے پھنسے قرض کی وصولی کو لیکر سرکار پر جو سختی دکھائی ہے وہ بے وجہ نہیں ہے۔ سال در سال سرکاری سیکٹر کے بینک پھنسے قرض کی دلدل میں پھنستے جارہے ہیں۔ ان بینکوں کو قرض سے نکالنے کیلئے عام ٹیکس دہندہ کے پیسے کا استعمال ہورہا ہے۔ لیکن رسوخ داروں سے قرض وصولی کا کوئی ٹھوس راستہ نہیں نکالا جاسکا۔ پچھلے پانچ برسوں کے دوران سابق یوپی اے اور اب این ڈی اے سرکار قرض وصولی کا کوئی نیا طریقہ نہیں تلاش سکی۔ یہی نہیں بڑے رسوخ دار قرض داروں کی ضبط املاک کو بیچنے کا ریکارڈ بھی بیحد خراب ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال بیرون ملک فرار ہوچکے صنعت کار وجے مالیا کی پراپرٹی کی ہے۔ بینکوں کی تمام کوششوں کے باوجود انہیں اب تک بیچا نہیں جاسکا۔ 29 دسمبر 2016ء کو جاری آر بی آئی رپورٹ اس ناکامی کی پول کھول رہی ہے۔ سال2015-16 ء کی بات کریں تو لوک عدالتیں و قرض وصولی ٹربونل ڈی آر ٹی اور سرفیسی ایکٹ کے تحت بینک کل 4429.48 ارب روپے کے قرض میں پھنسے معاملے کو لیکر آئے تھے۔ اس میں صرف 453.36 ارب روپے کی ہی وصولی ممکن ہوپائے گی۔ یہی کہانی سال درسال دوہرائی جارہی ہے۔ ان وصولی مشینری کے پاس جتنی رقم کے پھنسے کیس لائے جاتے ہیں اس کا 10 سے20 فیصد ہی وصول ہوپاتا ہے۔ ستمبر 2016ء تک کے اعدادو شمار کے مطابق دیش یا بینکوں کا اصلی این پی اے 5.65 لاکھ کروڑ روپے کا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!