چناؤ کا پانچواں مرحلہ طے کرے گا یوپی اقتدار کا مالک کون
اترپردیش اسمبلی انتخابات کے چار مرحلوں میں ہوئی ووٹنگ سے 403 سیٹوں میں سے 262 سیٹوں پر چناؤپورا ہوچکا ہے۔ چوتھے مرحلہ میں 53 سیٹوں پر 60.37 فیصد پولنگ ہوئی جو 2012ء سے ان سیٹوں پر دو فیصدی زیادہ تھا۔ چار مرحلوں کے بعد پانچویں مرحلہ میں 27 فروری کو 11 اضلاع کی 52 سیٹوں پر پولنگ ہوئی۔ اسی مرحلہ میں بہرائج ضلع کی 7 اور بستی کی 2 ، بلرام پور ضلع کی 4، گونڈہ ضلع میں 7، سلطانپور میں 5، امیٹھی کی 4، فیض آباد ضلع کی5، امبیڈکر نگر کی 5، سدھارتھ نگر کی 5 اور ستبیر نگر ضلع کی3 سیٹوں پر پیر کو ووٹ ڈالے گئے۔ پانچویں مرحلہ کی 52 سیٹوں میں سے 2 سیٹیں ایسی ہیں جن پر سپا ۔ کانگریس کے امیدوار آمنے سامنے ہیں۔ یہ دونوں سیٹیں راہل گاندھی کے پارلیمانی حلقے امیٹھی و گوری گنج کی ہیں۔ ان دونوں سیٹ پر راہل اور اکھلیش اپنے اپنے امیدواروں کے لئے ووٹ مانگ چکے ہیں۔ حالانکہ دیگر سیٹوں پر اتحاد کے ساتھ چناؤ لڑا جارہا ہے۔
اس مرحلہ میں اکھلیش و راہل کی دوستی کا بھی امتحان ہوگا۔ سبھی کی نگاہیں اس پر لگی ہیں اتحاد اپنی ساکھ برقرار رکھ پائے گایا نہیں 2012ء میں اس مرحلہ میں ہو رہی ووٹنگ میں 52 سیٹوں میں سے 42 سیٹوں پر سپا۔ کانگریس کا قبضہ تھا۔ اود علاقہ و پوروانچل سے اکھلیش سرکار کے دو وزیر اور سدھارتھ نگر میں اسمبلی اسپیکر ماتا پرساد پانڈے کی قسمت کا فیصلہ بھی اسی مرحلہ میں ہوگیا ہے۔ پی ایم ، سی ایم اور کانگریس نائب صدر، بسپا چیف سمیت تمام سرکردہ لیڈروں کے دوروں سے اس علاقے کا چناوی ماحول پوری طرح گرمایا ہوا ہے۔ اپنے گڑھ میں سپا کو بھاجپا اور بسپا سے زبردست چنوتی ملی ہے۔ یہ مرحلہ سپا سے جھٹکا کھانے کے بعد بسپا میں شامل ہوئے انصاری بندھوؤں کا اصلی امتحان ہوگا۔ ویسے تو پوروانچل کے کئی اضلاع میں مختار انصاری اور افضل انصاری کا اثر ہونے کی بات کہی جارہی ہے لیکن اپنے آبائی ضلع غازی پور سمیت تین دیگر اضلاع کی قریب 26 سیٹیں ایسی ہیں جہاں پر انصاری بندھوؤں کا خاصا اثر مانا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انصاری بندھوؤں پر کبھی سپا تو کبھی بسپا ڈورے ڈالتی رہی ہے اس لئے اس بار بسپا نے مسلمانوں کو شیشے میں اتارنے کے لئے پھر سے انصاری بھائیوں کا ساتھ لیا ہے۔
دراصل پوروانچل کے قریب دو درجن اضلاع میں مسلم سماج پر انصاری بھائیوں کے اثر کو سبھی سیاسی پارٹیاں جانتی ہیں۔ حالانکہ یہ پہچان ان کی سیاسی ساکھ سے زیادہ دبنگ کے طور پر مانی جاتی ہے۔ پھر بھی سیاسی پارٹی ان کا سہارا لیکر چناوی تجزیئے بناتی رہتی ہے۔ لوک سبھا اور اسمبلی کے کئی چناؤ میں لگاتار جیت درج کر انصاری بندھو بھی اپنی قوم پر مضبوط پکڑ رکھنے کا سندیش دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے سپا اور بسپا ان کا سہارا لیتی رہی ہیں۔ اترپردیش کا یہ پورا علاقہ یعنی پوروانچل دہائیوں سے جھوٹے وعدوں کا دور جھیلتا آرہا ہے۔ یہاں کا نوجوان بے روزگاری کی وجہ سے در در بھٹکتا پھرتا ہے تو کسان کھیتوں سے لاگت بھی نہیں نکال پاتے۔ مشرقی اترپردیش کے اس علاقے میں بجلی ، پانی کا بحران ابھی تک بدستور قائم ہے۔ 24 گھنٹے بجلی دینے کے وعدے پر سرکار فیل رہی ہے۔ شہروں کو چھوڑ دیا جائے تو گاؤں میں بجلی مشکل سے 8سے10 گھنٹے آرہی ہے۔
بڑی صنعتوں کے دھندوں کی کمی میں پوروانچل کے کسان خودکشی کررہے ہیں۔نوجوانوں کی ہجرت دیگر بڑے شہروں کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ نیپال سے لگے ہونے کے سبب پوروانچل اسمگلنگ و جرائم کے لئے مفید مانا جاتا ہے۔ ہیروئن ، گانجا، چرس و روپے کی اسمگلنگ کی برابر یہاں وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔ یہاں تک نیپال سے عورتوں کی اسمگلنگ خوب ہوتی ہے۔ عوام کے نمائندوں کی بے توجہی کے چلتے اس جرم پر لگام نہیں لگ پارہی ہے۔ ہندوستانی سیاست کی سمت اگر یوپی کے اسمبلی چناؤ کے کسی حلقے کو جاتی ہے تو وہ یہ پانچواں مرحلہ ہے۔ اس بار بھی یوپی اسمبلی چناؤ کا پانچواں مرحلہ ہی طے کرے گا کہ کونسی پارٹی اترپردیش کے اقتدار پر قابض ہوگی۔ ایسا مانا جاتا ہے پانچویں مرحلے میں جس پارٹی یا اتحاد کو بھاری جیت ملتی ہے سرکار بھی اسی پارٹی یا اتحاد کی کسی نہ کسی طرح سے بنتی ہے۔ اس کے پہلے 2012ء کے چناؤ کے پانچویں مرحلہ کی 52 سیٹوں میں سے 37 سیٹیں اکیلی سماجوادی پارٹی کو ملی تھیں اور صوبے میں سرکار بھی سپا کی ہی بنی۔ پانچویں مرحلہ میں دیش کی نظریں فیض آباد ضلع کی ایودھیا اسمبلی سیٹ پر بھی ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے ایودھیا سیٹ شروع سے ہی وقار کا سوال بنی ہوئی ہے لیکن 2012ء میں بھاجپا 5405 ووٹ سے سپا سے ہار گئی تھی۔جہاں راہل گاندھی کا بھی امتحان ہونا ہے وہیں بغل کے ضلع سلطانپور کے ایم پی اور ان کے چچیرے بھائی ورون گاندھی کا بھی امتحان ہونے جارہا ہے حالانکہ ورون گاندھی فی الحال اس چناؤ میں علاقے میں کمپین کے لئے نہیں آئے ہیں۔ سلطانپور ضلع سے ہی کانگریس کے راجیہ سبھا ایم پی راجا سنجے سنگھ کی ساکھ بھی اس مرحلے سے جڑی ہوئی ہے۔ ان کی سابق رانی اور موجودہ رانی میں زبردست چناوی جنگ جاری ہے اس لئے جہاں بھاجپا کیلئے اس مرحلہ میں زیادہ سے زیادہ سیٹیں جیتنے کی چنوتی ہے وہیں سپا ۔ کانگریس اتحاد کیلئے بھی اگنی پریکشا ہے۔ بہن جی بھی یہاں پورا زور لگا رہی ہیں اور دیگر پارٹیوں کو سخت ٹکر دی رہی ہیں۔ دیکھیں اونٹ کس کرونٹ بیٹھتا ہے؟
اس مرحلہ میں اکھلیش و راہل کی دوستی کا بھی امتحان ہوگا۔ سبھی کی نگاہیں اس پر لگی ہیں اتحاد اپنی ساکھ برقرار رکھ پائے گایا نہیں 2012ء میں اس مرحلہ میں ہو رہی ووٹنگ میں 52 سیٹوں میں سے 42 سیٹوں پر سپا۔ کانگریس کا قبضہ تھا۔ اود علاقہ و پوروانچل سے اکھلیش سرکار کے دو وزیر اور سدھارتھ نگر میں اسمبلی اسپیکر ماتا پرساد پانڈے کی قسمت کا فیصلہ بھی اسی مرحلہ میں ہوگیا ہے۔ پی ایم ، سی ایم اور کانگریس نائب صدر، بسپا چیف سمیت تمام سرکردہ لیڈروں کے دوروں سے اس علاقے کا چناوی ماحول پوری طرح گرمایا ہوا ہے۔ اپنے گڑھ میں سپا کو بھاجپا اور بسپا سے زبردست چنوتی ملی ہے۔ یہ مرحلہ سپا سے جھٹکا کھانے کے بعد بسپا میں شامل ہوئے انصاری بندھوؤں کا اصلی امتحان ہوگا۔ ویسے تو پوروانچل کے کئی اضلاع میں مختار انصاری اور افضل انصاری کا اثر ہونے کی بات کہی جارہی ہے لیکن اپنے آبائی ضلع غازی پور سمیت تین دیگر اضلاع کی قریب 26 سیٹیں ایسی ہیں جہاں پر انصاری بندھوؤں کا خاصا اثر مانا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انصاری بندھوؤں پر کبھی سپا تو کبھی بسپا ڈورے ڈالتی رہی ہے اس لئے اس بار بسپا نے مسلمانوں کو شیشے میں اتارنے کے لئے پھر سے انصاری بھائیوں کا ساتھ لیا ہے۔
دراصل پوروانچل کے قریب دو درجن اضلاع میں مسلم سماج پر انصاری بھائیوں کے اثر کو سبھی سیاسی پارٹیاں جانتی ہیں۔ حالانکہ یہ پہچان ان کی سیاسی ساکھ سے زیادہ دبنگ کے طور پر مانی جاتی ہے۔ پھر بھی سیاسی پارٹی ان کا سہارا لیکر چناوی تجزیئے بناتی رہتی ہے۔ لوک سبھا اور اسمبلی کے کئی چناؤ میں لگاتار جیت درج کر انصاری بندھو بھی اپنی قوم پر مضبوط پکڑ رکھنے کا سندیش دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے سپا اور بسپا ان کا سہارا لیتی رہی ہیں۔ اترپردیش کا یہ پورا علاقہ یعنی پوروانچل دہائیوں سے جھوٹے وعدوں کا دور جھیلتا آرہا ہے۔ یہاں کا نوجوان بے روزگاری کی وجہ سے در در بھٹکتا پھرتا ہے تو کسان کھیتوں سے لاگت بھی نہیں نکال پاتے۔ مشرقی اترپردیش کے اس علاقے میں بجلی ، پانی کا بحران ابھی تک بدستور قائم ہے۔ 24 گھنٹے بجلی دینے کے وعدے پر سرکار فیل رہی ہے۔ شہروں کو چھوڑ دیا جائے تو گاؤں میں بجلی مشکل سے 8سے10 گھنٹے آرہی ہے۔
بڑی صنعتوں کے دھندوں کی کمی میں پوروانچل کے کسان خودکشی کررہے ہیں۔نوجوانوں کی ہجرت دیگر بڑے شہروں کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ نیپال سے لگے ہونے کے سبب پوروانچل اسمگلنگ و جرائم کے لئے مفید مانا جاتا ہے۔ ہیروئن ، گانجا، چرس و روپے کی اسمگلنگ کی برابر یہاں وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔ یہاں تک نیپال سے عورتوں کی اسمگلنگ خوب ہوتی ہے۔ عوام کے نمائندوں کی بے توجہی کے چلتے اس جرم پر لگام نہیں لگ پارہی ہے۔ ہندوستانی سیاست کی سمت اگر یوپی کے اسمبلی چناؤ کے کسی حلقے کو جاتی ہے تو وہ یہ پانچواں مرحلہ ہے۔ اس بار بھی یوپی اسمبلی چناؤ کا پانچواں مرحلہ ہی طے کرے گا کہ کونسی پارٹی اترپردیش کے اقتدار پر قابض ہوگی۔ ایسا مانا جاتا ہے پانچویں مرحلے میں جس پارٹی یا اتحاد کو بھاری جیت ملتی ہے سرکار بھی اسی پارٹی یا اتحاد کی کسی نہ کسی طرح سے بنتی ہے۔ اس کے پہلے 2012ء کے چناؤ کے پانچویں مرحلہ کی 52 سیٹوں میں سے 37 سیٹیں اکیلی سماجوادی پارٹی کو ملی تھیں اور صوبے میں سرکار بھی سپا کی ہی بنی۔ پانچویں مرحلہ میں دیش کی نظریں فیض آباد ضلع کی ایودھیا اسمبلی سیٹ پر بھی ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے ایودھیا سیٹ شروع سے ہی وقار کا سوال بنی ہوئی ہے لیکن 2012ء میں بھاجپا 5405 ووٹ سے سپا سے ہار گئی تھی۔جہاں راہل گاندھی کا بھی امتحان ہونا ہے وہیں بغل کے ضلع سلطانپور کے ایم پی اور ان کے چچیرے بھائی ورون گاندھی کا بھی امتحان ہونے جارہا ہے حالانکہ ورون گاندھی فی الحال اس چناؤ میں علاقے میں کمپین کے لئے نہیں آئے ہیں۔ سلطانپور ضلع سے ہی کانگریس کے راجیہ سبھا ایم پی راجا سنجے سنگھ کی ساکھ بھی اس مرحلے سے جڑی ہوئی ہے۔ ان کی سابق رانی اور موجودہ رانی میں زبردست چناوی جنگ جاری ہے اس لئے جہاں بھاجپا کیلئے اس مرحلہ میں زیادہ سے زیادہ سیٹیں جیتنے کی چنوتی ہے وہیں سپا ۔ کانگریس اتحاد کیلئے بھی اگنی پریکشا ہے۔ بہن جی بھی یہاں پورا زور لگا رہی ہیں اور دیگر پارٹیوں کو سخت ٹکر دی رہی ہیں۔ دیکھیں اونٹ کس کرونٹ بیٹھتا ہے؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں