بڑے بے آبرو ہوکے تیرے کوچے سے ہم نکلے!

ریٹائرمنٹ سے ٹھیک12 دن پہلے جمعرات کے روز سپریم کورٹ نے سی بی آئی ڈائریکٹر رنجیت سنہا کو خود ان کے محکمے کی طرف سے جاری ٹوجی اسپیکٹرم معاملے کی جانچ کارروائی سے الگ کیا تو یقیناًپہلا ایسا موقعہ تھا کہ جب کسی ایجنسی کے سربراہ کو اپنے ہی محکمے کے کسی معاملے میں مداخلت سے ہٹایا گیا ہو۔ سپریم کورٹ کے حیرت انگیز فیصلے نے سنہا کو 1.76 لاکھ کروڑ روپے کے ٹوجی گھوٹالے کے ملزمان کی مدد کرنے کا الزام عدالت نے پہلی نظر میں صحیح پایا ہے۔ سی بی آئی کے چیف کیلئے اس سے زیادہ شرمندگی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے انہیں اس جانچ سے ہٹا دیا گیا۔ رنجیت سنہا نے خوابوں میں بھی امید نہیں کی ہوگی کہ عدالت اتنا تلخ تبصرہ اور کارروائی کرے گی۔ دراصل رنجیت سنہا شروع سے ہی تنازعات میں گھرے رہے۔ سی بی آئی ڈائریکٹر کی حیثیت سے تقرری پر بھی تنازعہ برقرار رہا۔ یوپی اے سرکارنے کلونیم سسٹم کے عمل میں آنے سے ٹھیک پہلے سینٹرل ویجی لنس کمیشن کی سفارشوں کو درکنار کر ان کا انتخاب کرلیا۔ بی جے پی نے تب اس پر کافی ہنگامہ مچایا تھا بعد میں صفائی دی گئی تھی کہ سی بی آئی کو بغیر ڈائریکٹر کے زیادہ دنوں تک تنہا نہیں چھوڑا جاسکتا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ٹوجی گھوٹالے کی جانچ سے ہٹائے جانے کے فیصلے پر سنہا صاحب کہہ رہے ہیں انہیں کوئی شرمندگی نہیں ہے۔یہ اگر خود اعتمادی ہے تو بیحد عجب قسم کی ہے اور اس سے ان کا زیادہ مذاق اڑنا طے ہے۔ ان کے ریٹائرمنٹ میں محض12 دن بچے ہیں ایسے میں یہ ہی بہتر ہوگا کہ وہ اپنے تھوڑی بہت بچی عزت کی خاطر سی بی آئی چیف سے استعفیٰ دے دیں کیونکہ انہیں کوئی شرمندگی نہیں ہے اس لئے وہ ایسا شاید ہی کریں۔ جو انہوں نے اپنے برتاؤ سے خود کے ساتھ ساتھ سی بی آئی پر بھروسہ اور وقار دونوں کو داؤ پر لگادیا ہے یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ وہ ایسے سی بی آئی چیف کے طور پر جانے جائیں گے کہ جو نہ صرف محض مشتبہ قسم کے لوگوں سے ملاقاتیں کرتے تھے بلکہ گھوٹالے بازوں کی مبینہ طور پر مددکے لئے تیار رہتے تھے۔ سینئروکیل پرشانت بھوشن نے اپنے الزام کے حق میں سنہا کے گھر ایسے کئی انتہائی بارسوخ لوگوں کے بار بار آنے جانے کے ثبوت پیش کئے جو ٹوجی اسپیکٹرم گھوٹالے کے ملزم تھے۔ ان کے نام آنے جانے والوں کی ڈائری میں درج تھے۔ سنہا نے اپنے بچاؤ میں تمام دلیلیں دیں اور اپنے ہی ایک افسر پر خفیہ دستاویز کو آؤٹ کرنے کا الزام لگادیا۔ عدالت نے ان کی تمام دلیلوں کو مسترد کرتے ہوئے اس بات کو مانا کہیں نہ کہیں ان الزامات میں دم ہے۔ پہلے بھی عدالت انہی معاملوں میں سی بی آئی کو پنجرے میں بند ’’طوطا‘‘ سے تشبیہ دے چکی ہے۔ یہ سبھی جانتے ہیں دیش کی یہ سب سے بڑی تفتیشی ایجنسی اتنا ہی کام کرتی ہے جتنا اسے مرکزی سرکار سے اشارہ ملتا ہے۔ یہ سیدھے وزیر اعظم کے ماتحت کام کرتی ہے۔ عدالت کا یہ حکم اس معاملے میں تاریخی اس لئے ہے کیونکہ پہلی بار کسی ڈائریکٹر کو اتنی اہم جانچ سے الگ کیا گیا ہے۔ سنہا اپنی عہدہ میعاد میں بہت متنازعہ افسر رہے ہیں۔ سنہا کی ضد کے سبب عشرت جہاں کانڈ میں سی بی آئی اور آئی بی دونوں آمنے سامنے آگئیں تھیں۔یہاں تک کہ آئی بی کے ایک افسر کے خلاف شخصی طور پر سامنے آکر وہ اس کی گرفتاری پر آمادہ ہوگئے تھے۔ اتنے ذمہ دار عہدے پر بیٹھے کسی افسر کے لئے اتنا بے چین ہونا ٹھیک نہیں ہوتا۔ عام زندگی میں ایماندار ہونا جتنا ضروری ہے اتنا ہی ایمانداری دکھانا بھی تاکہ لوگوں کو انگلی اٹھانے کا موقعہ نہ مل سکے۔ اگر رنجیت سنہا پر لگے الزامات میں ذرا بھر بھی سچائی ہے تو وہ ٹوجی گھوٹالے میں شامل کچھ لوگوں کو بچانے کی کوشش کررہے تھے تو پھر صرف اتنے پر اکتفا نہیں کیا جاسکتا کہ انہیں اس معاملے کی جانچ سے ہٹایا جائے بلکہ ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے کیونکہ وہ ایک طرح سے دیش کے بھروسے کا قتل کررہے تھے۔ آخر ایسے لوگ کیسے بڑے عہدوں تک پہنچ جاتے ہیں اس سوال کا جواب بھی یوپی اے سرکار سے لینا چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!