سڑک پر بھیک مانگتے مجبور بچے!

دہلی کے مصروف ترین چوراہے آئی ٹی او پر کھڑی پانچ سالہ معصوم بچی ریشمہ کو نہیں پتہ کہ بال دیوس کیا ہوتا ہے؟ اسے صرف اتنا پتہ ہے کہ اگر شام تک بھیک مانگ کر50 روپے جمع نہیں کئے تو اسے بھوکے پیٹ سونا پڑے گا۔ دہلی گیٹ کے چوراہے پر پھول بیچنے والی ریکھا کہتی ہے کہ اسکول کی بسوں کو جاتے دیکھ کر ایسا لگتا ہے کاش ہم بھی پڑھ پاتے لیکن کھانے کو دو وقت کی روٹی نہیں ہے پڑھائی کیسے کریں؟ یہ کہانی محض ان دو بچوں کی ہی نہیں بلکہ این جی او کے اعدادو شمار کی مانیں تو پانچ لاکھ اسٹریٹ چلڈرن دہلی کی سڑکوں پر جینے کو مجبور ہیں۔ یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ حکومت بچوں کی ترقی پر لاکھوں روپے خرچ کرنے کا دعوی کرتی آئی ہے لیکن راجدھانی سمیت پورے دیش میں کوئی سرکاری تفصیلات دستیاب نہیں ہیں کہ کتنے بچے سڑکوں پر در در کی ٹھوکریں کھانے کو مجبور ہیں۔ دریاگنج چوراہے پر کھڑی ایک لڑکی نرملا کہتی ہے کہ روزانہ پھول بیچ کر 100 ڈیڑھ سو روپے مل جاتے ہیں۔ جس دن پھول نہیں بک پاتے اس دن اس کو بھوکے پیٹ سونا پڑتا ہے۔ ہاں پاس کے اسکول میں بچوں کو جاتے دیکھ کر پتہ چلتا ہے ہم کتنے بدقسمت ہیں۔ نظام الدین چوراہے پر درگاہ کے تمام بکھاری بچوں ببلو، سمن، نظام، حیدر سب کا یہی کہنا ہے کہ ہمیں تو یہ پریشانی ہے کہ اب سردیاں آگئیں ہے گرمیاں تو سڑک پر کٹ جاتی ہیں لیکن سردیوں میں کیسے گزارا ہوگا؟ کناٹ پلیس کے ہنومان مندر احاطے کے آس پاس درجنوں بچے روزانہ چوراہے پر بھیک مانگتے دکھائی پڑجاتے ہیں ان میں سے بہت سے بچے نشے کے عادی ہوچکے ہیں۔ حالت تو یہ ہے کہ ان بچوں میں تمام طرح کی بیماریاں پیدا ہوچکی ہیں۔ کامن ویلتھ گیمز میں کروڑوں روپے خرچ کرکے کناٹ پلیس کو خوبصورت تو بنادیا گیا لیکن بچوں اور یہاں موجود بکھاریوں کی فوج کا مسئلہ حل نہیں ہوسکا۔ بچوں کی بکھاری فوج دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ دوسری طرف بچوں کے تئیں جرائم کا گراف بھی بڑھ رہا ہے۔ ان واقعات میں 24 فیصد اضافہ ہوا ہے۔2011ء میں33098 معاملے بچوں کے تئیں جرائم کے درج کئے گئے جبکہ 2010ء میں یہ تعداد26694 تھی۔ سب سے زیادہ اترپردیش (16.6 فیصد) دوسرے نمبر پر مدھیہ پردیش (13.2 فیصد) دہلی (12.8 فیصد) مہاراشٹر میں (10.2 فیصد) بہار (6.7 فیصد) آندھرا پردیش میں بھی یہی تعداد ہے۔ آبادی کے مطابق 1991ء میں دیش میں جہاں11.28 فیصد ملین بچے مزدور تھے وہیں 2001 میں ان کی تعداد 12.66 ملین تک پہنچ گئی۔ پان ،بیڑی، سگریٹ پینے کی شرح فیصد 21 ہے جبکہ ان کا ازالہ(17 فیصد) رہا۔کھڈیوں میں کٹائی بنائی کرنے والے مزدور بچوں کی تعداد11 فیصد میں سب سے زیادہ ہے۔ بتایا جاتا ہے بچے دیش کا مستقبل ہوتے ہیں ان اعدادو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بچوں کی اصلیت کیا ہے۔ ان میں سے کافی تعداد میں بچے بڑے ہوکر بدمعاش بن جاتے ہیں۔ ہم نے نربھیا کانڈ و دوسرے واقعات میں دیکھا ہے نابالغ بچے کتنے بڑے بڑے جرائم کر بیٹھتے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ان بچوں کو بچانے کیلئے ایک پائیدار پالیسی بنائے تاکہ ان کا مستقبل بہتر ہو اور ان کی مجبوریاں بھی ختم ہوں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟