جموں وکشمیر میں 70فیصد پولنگ علیحدگی پسندوں کے منہ پر طمانچہ ہے!

جموں و کشمیر میں 5مرحلوں میں ہورہے اسمبلی چناؤ کے پہلے مرحلے میں منگل کے روز 15 انتخابی حلقوں میں علیحدگی پسند تنظیموں کے جانب سے بائیکاٹ کو درکنار کرتے ہوئے اور کڑاکے کی سردی کے باوجود 70 فیصد سے زائد ووٹروں نے اپنے حق کے رائے دہندگی کا استعمال کیا ہے۔ قسط وار کے 69 سالہ علیم الدین کسی بھی قیمت پر پولنگ میں حصہ لیناچاہتے تھے۔ وہ اپنے دوبیٹوں کو آتنکی تشدد میں گنوا چکے علیم الدین کا ووٹ ڈالنے کا مقصد یہی تھا کہ جمہوریت کی جیت ہو تاکہ دہشت گردی کا خاتمہ ہو ہمیں اس بات سے فرق نہیں پڑھتا ووٹروں نے اپنا ووٹ کس پارٹی کو دیا ہے؟ سب سے اہم تو یہ ہے کہ انہوں نے ووٹ ڈالا ہے۔ اور ایسا کرنے سے یہ صاف اشارہ دیا ہے کہ وہ ریاست میں دہشت گردی سے تنگ آچکے ہیں کشمیر کے ایک اور علاقے کنگن کے باشندے یوسف کے لئے اشو دہشت گردی نہیں اور نہ ہی کشمیر کی آزادی تھا۔ بلکہ وہ گاؤں کے ترقی کے لئے سرکار کے چننے کا مقصد سے آتنکی دھمکی کے باوجود کے پولنگ کے لئے سردی کی پرواہ کئے بغیر پولنگ بوتھ پر آیا تھا۔ پہلے مرحلے کی پولنگ میں شامل ہوئے ووٹروں کی چاہے الگ الگ وجہ رہی ہو لیکن سب کا مقصد ایک ہی تھا وہ سب ہی بغیر خوف کے پولنگ میں شامل ہوئے وہ آتنکیوں اور ان کے آقاؤں اور پڑوسی ملک کے دلوں پر سانپ ضرور لوٹ گیا ہوگا۔ آخری لوٹے بھی کیوں نہ! 25 سال کے آتنک واد سے لڑرہی ریاست کی عوام کو جمہوری عمل سے کوئی بھی دور نہیں رکھ سکیں اب کی بار جموں وکشمیر میں کس پارٹی کی سرکار ہوگی؟مختلف دعوے ہورہے ہیں کہیں اتحادی سرکار کے دعوے ہیں تو کہیں اکثریت حاصل کراپنے دم خم پر سرکار بنانے کے ہے۔ جموں وکشمیر کے علیحدگی پسند لیڈر رہ چکے سجاد لون کی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات اور ان کی تعریف میں قصیدے پڑھنے سے اس ریاست کی سیاست کے تغذیہ میں تیزی سے بدلاؤ آنے کی ا مید ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے ٹوٹنے کے ساتھ ان کے لیڈر اب پارٹیاں بدلنے میں لگے ہوئے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ریاست میں اقتدار بدلنے کے ساتھ آثار ہے۔ لیکن اس تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ وزیراعلی عمر عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی ملی جلی حکومت کے دوران زبردست بدعنوانی فیصلوں میں ٹال مٹول اور نکمے پن کے ساتھ ساتھ اس کاجانبدارانہ اور بے احساس ہونا رہا ہے۔ اس کی انتہا ستمبر میں کشمیر میں آئے سیلاب کے دوران دیکھنے کو ملی۔عمر حکومت اور انتظامیہ راحت اور مدد پہنچانے میں ناکام ثابت ہوئے۔ اس کے برعکس وزیراعظم نریندر مودی کا وہاں فورا پہنچنا اور سو کروڑ روپے کی فوری مالی مدد کے ساتھ سیکورٹی فورس اور فوج کے جوانوں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر مصیبت زدہ لوگوں کی جان بچائی ہے۔ جموں وکشمیر کے نوجوانوں میں مودی کو لے کر کافی جوش اور امیدیں پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے مرحلے میں 70 فیصدی پولنگ ہوئی۔ ان میں اکثریت نوجوانوں کی تھی دیکھنا یہ ہے کہ وادی میں بھاجپا کو کتنی سیٹیں مل سکتی ہیں؟ جموں اورلداخ میں تو اسے کامیابی ملیں گی ہی لیکن وادی میں کیا ہوتا ہے؟ بہرحال پہلے مرحلے میں 70 فیصد ووٹ ڈال کر عوام نے دہشت گردی پر کراکر طمانچہ مارا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟