مودی کے دورے سے ہند نیپال اشتراک کی نئی شروعات ہوگی!

وزیراعظم نریندر مودی کے نیپال دورے سے دونوں ملکوں کے آپسی تعلقات میں ایک نئی شروعات ہوئی ہے۔ اس دورے سے بھارت کی پڑوسی پالیسی میں بنتے گئے خلع کو بھرنے کی شروعات ہوئی ہے۔ بھارت کے کسی وزیراعظم کا نیپال کاجانا اب 17سال بعد ہوا ہے وزیراعظم نریندر مودی کے نیپال جانے سے کچھ دن پہلے وزیرخارجہ سشما سوراج وہاں گئیں تھیں اور تب ہی خارجہ پالیسی میں نیپال کی ا ہمیت کے بڑھنے کے اشارے مل گئے تھے۔ یوپی اے حکومت نے کبھی بھی نیپال کو وہ اہمیت نہیں دی جو دی جانی چاہئے تھی۔ شاید اس کی ا یک وجہ یہ رہی ہو کہ نیپال میں پشوپتی ناتھ مندر میں کانگریس پردھان سونیا گاندھی کو درشن کرنے سے روکا گیا تھا۔ کیونکہ وہ غیر ملکی نثراد تھیں یوپی اے کے لیڈروں نے کبھی اس بارے میں سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اپنے سبھی پڑوسی ملکوں سے ہمارے رشتے تلخی بڑھے کیوں ہوتے جارہے ہیں۔غنیمت نئے وزیراعظم شروع سے ہی اس پہلو کو لیکر فکر مند تھے کہ رشتوں کو پٹری پر لانے کے لئے وہ اپنی ڈپلومیٹک کوشش کررہے ہیں۔ یہ کہنے میں کوئی قباحت نہیں ہونا چاہئے کہ عہدہ سنبھالنے کے بعد سے سرکاری طور پر نیپال کادورہ ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے انہوں نے نیپالی پارلیمنٹ کو خطاب کیا اور ان کی تقریر متوازن اور نپی تلی رہی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بھارت نیپال کے رشتوں میں ہمیشہ سے جو ایک لچیلے پن خوشی کا لمحہ شامل رہتا آیا ہے عرصے کے بعد نریندرمودی نے پھر سے برقرار رکھا ہے۔ ساون کے آخری پیر کو نریندرمودی نے دنیا کے مشہور پشو پتی ناتھ مندر میں جل ابھیشیک اور رودر میشک کیا۔مودی سے پہنچنے سے پہلے ہی یہاں پر ان کی پوجا کے لئے خاص انتظامات کئے گئے تھے۔چیف پجاری گنیش بھٹ نے جل ابھیشیک اور دیگر خانہ پوری مذہبی رسم رواج کے ساتھ پوری کرائی۔ ساون کے مہینے میں پوجا کی خاص اہمیت مانی گئی ہے۔ نریندرمودی مندر میں ایک منفرد شردھالوؤں کے پوشاک میں نظر آئے۔ گلے میں وہاں کی ایک بڑی مالا ڈال رکھی تھی۔ اس موقعے پر نریندر مودی نے مندر کو 2500سوکلو چندن کی لکڑی بھینٹ کی جس کی قیمت 3کروڑ روپے بتائی جاتی ہے۔ وزیراعظم مودی کے نیپال دورے کی کامیابی محض نیپال کے ساتھ ہوئے معاہدوں کے ذریعے ہی نہیں بلکہ وہاں کے لوگوں کے ردعمل کو دیکھنا چاہئے پہلی بار بھارت کے کسی وزیراعظم کا نیپال کی آئین سبھا کو خطاب کرنا جتنا قابل ذکر تھا اس سے کئی گناہ زیادہ اہمیت بڑھ گئی تھی اس خطاب میں انہوں نے نیپال کے لوگوں کا دل جیتنے اور اسے برابری کادرجہ دینا کاجذبہ شامل تھا۔ مودی بھارت کی دھارمک راجدھانی وارانسی سے نمائندگی کرتے ہیں۔ جسے ہندو بابا وشواناتھ کی نگری کی شکل میں بھی مانا جاتا ہے۔ نیپال کی راجدھانی کاٹھمنڈو بھی دھارمک اور ثقافتی شہر ہے یہاں بھگوان پشوناتھ موجود ہے۔ کاشی اور کاٹھمنڈ کا رشتہ بھارت نیپال کی مشترکہ وراثت میں ایک کلچرل پل کا کام کرتا ہے۔ اس لئے دورے کے دوسرے دن جو ساون کاآخر پیر تھا انہوں نے بھگوان پشوپتی ناتھ کا ابھیشیک کاپوجن کیا۔
دوسرے سابقہ حکومتوں خاص کر یوپی اے سرکاروں کی بے توجہی سے دیگر پڑوسیوں کی طرح بھی نیپال کے رشتے بہت اچھے نہیں رہے۔ علاقائی توازن کی نقطہ نظر سے یہ بھارت کے لئے فائدہ مند نہیں۔ ہماری فراغ دلی کا فائدہ اٹھا کر چین اور پاکستان نیپال میں اپنی بیڈ بنا لی اور چین کی تو ہر کوشش رہی ہے کہ اقتصادی اور دیگر لالچ کے ذریعے نیپال کو اپنے بھارت مخالف کیمپ میں شامل کیا جائے۔ پاکستان نے بھی آئی ایس آئی جڑیں پچھلے دس سالوں میں مضبوط کرلی ہے۔ نیپال کے لئے ذریعے چاہے وہ آتنکی وادی ہو یا نقلی کرنسی ہو پاکستان بھارت کو نقصان پہنچاتا رہا ہے۔ پچھلے کافی عرصے سے نیپال کے تئیں ہمارا بڑتاؤ بڑے بھائی جیسا رہا ہے۔ اس کے ساتھ رشتوں کی سمت طے کرتے ہوئے کئی بار ہماری سرکاریں افسر شاہوں پر بھروسہ کرتیں آئیں ہے۔ نریندر مودی نے یہ روایت توڑ دی ہے انہوں نے کچھ باتیں صاف صاف کہی ہے جسے نیپال کے اندرونی معاملے میں بھارت دخل نہیں دے گا۔ نئی دہلی کاٹھمنڈ و کی ترقی میں بھروسہ کرتا ہے۔ اور اس کے ساتھ مل کر کام کرنے کاخواہش مند ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے خطاب نے پارٹی لائن سے الگ ہٹ کر وہاں کے سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کو بھی بے حد متاثر کیا ہے۔ بھارت نیپال رشتوں میں یقینی طور سے ایک نئے دور کاآغاز ہوا ہے وزیراعظم کی پڑوسی ملکوں سے رشتوں میں اہمیت اور جذبات بھرے طریقے کار متعلقہ ملکوں کے سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ وہاں کے عوام کو بھی بہت متاثر کیا ہے۔ اس کاثبوت نیپال کے ماؤوادی لیڈر پشپ کمل دہل پرچنٹ کے بیانوں سے ملتا ہے۔ دھرمل پاور سیاحت اور ہربل دوائیں جیسے کئی سیکٹر میں نیپال کے امکانات کا ذکر کرتے ہوئے بھارت نے اس کی مدد کی ہے جو اس نے بھروسہ دیا ہے وہ بھی کم اہم نہیں ہے اسی طرح کوسی ندی طغیانی سے نیپال کے ساتھ مل کر بہار میں سیلاب کا جو خوفناک خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ وہ فی الحال ٹل گیا ہے اس پر بھی دونوں ملکوں نے نظر رکھنے کاوعدہ کیاتھا۔ صرف دوطرفہ رشتوں میں توانائی پیدا کرنے کے لحاظ سے نریندر مودی کا یہ دورہ ڈپلومیٹک طور پر کامیاب رہا۔ بھوٹان کے بعد نیپال کو غیرملکی دورے کے لئے چن کوانہوں نے اپنے پڑوسی ملکوں کوچین سے دھیان ہٹانے کی اپنی کوشش میں وہ کامیاب ہوتے دکھائی دیئے ہیں نیپال کی عوام نے مودی کا جو شاندار خیرمقدم کیا ہے وہ بھی ناقابل بیاں تھا نیپال کے وزیراعظم پروٹوکول کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ان کاخیرمقدم کرنے کے لئے ایئرپورٹ پر آئے اور پہلی بار کسی وزیراعظم کو توپوں کی سلامی ملی۔ پہلے وزیراعظم کی شکل میں وہاں کی پارلیمنٹ کو خطاب کیا اس سے رشتوں کی گرم جوشی کااندازہ لگتا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ دو طرفہ وعدوں پر عمل کیاجائے مودی کے اس دورے سے امید ہے کہ بھارت نیپال رشتوں میں ا یک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ جو دونوں کے لئے فائدہ مند ثابت ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!