مسلسل بڑھتی چینی دراندازی پر حکمت عملی کیا ہے؟

وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں نئی حکومت سرحدی تنازعے کو دیکھتے ہوئے اقتدار سنبھالنے کے بعد پڑوسی ممالک سے رشتے بہتر بنانے کی کوشش کررہی ہے، خاص کر چین سے۔ لیکن چین اپنی حرکتوں سے باز نہیں آرہا ہے۔ چین کے ذریعے مسلسل اکسائے جانے کی کارروائی سے وزیر اعظم کی ساری کوششوں پر پانی پھرتا دکھائی دے رہا ہے۔ برکس کانفرنس میں چینی صدر شی زن پنگ کی مودی سے ملاقات کے باوجود رشتوں پر چھائی عدم اعتماد کی پرچھائی ہٹتی نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ حالانکہ دراندازی کے واقعات کو بھارت معمولاتی واقعات بتاتے ہوئے کہا کہ حقیقی کنٹرول لائن کو لیکر الگ الگ تصورات کو لیکر ایسے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ لداخ میں چین کی دراندازی کی بات مانتے ہوئے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے صاف کیا ہے کہ دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان فلیگ میٹنگ کے بعد چینی لوگ اس جگہ سے واپس چلے گئے۔ فوج نے جمعرات کو پہلی بار پچھلے سال لداخ خطے کی دوپسان وادی میں قبضہ کرنے کی بات قبول کی اور کہا کہ ایسے واقعات کنٹرول لائن کے بارے میں الگ الگ نظریات کی وجہ سے ہوئے ہیں۔ چین کی وزارت دفاع کے ترجمان کرنل گینگ یونشنگ نے کہا کہ پچھلے سال سرحدی علاقوں میں کچھ واقعات ہوئے تھے۔ سارے اشو بات چیت کے ذریعے مناسب طریقے سے حل کرلئے جائیں گے۔ چین نے پاکستان کے قبضے والے کشمیر میں اپنے ملازمین کی موجودگی کو یہ کہتے ہوئے بچاؤ کیا کہ وہ کسی دیش کے خلاف نشانہ نہیں ہے بلکہ اشتراک پر مبنی سرگرمیوں میں لگی ہے تاکہ مقامی لوگوں کی روزمرہ کی زندگی میں بہتری لائی جاسکے۔ وزیر دفاع ارون جیٹلی کے پارلیمنٹ میں دئے گئے تبصرے پر کے بھارت نے پاکستان کے قبضے والے کشمیر میں چینی جوانوں کی موجودگی کے بارے میں اپنی تشویشات سے چین کو واقف کرادیا ہے۔ چین کی وزارت خارجہ نے بیجنگ میں کہا کہ تاریخ کا چھوٹا ہوا اشو ہے اور اس کا حل بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونا چاہئے۔ چین ترقیاتی اسکیموں کے ساتھ ہی پاکستان کے ساتھ مل کر پاکستان کے گوادر بندرگاہ کو اپنے شیانگ ویانگ صوبے سے پاکستان کے قبضے والے کشمیر کے ذریعے جوڑنے کے لئے ایک اقتصادی گلیارہ بنانے کی اسکیم کو سرگرمی سے آگے بڑھا رہا ہے۔اربوں ڈالر کے اس پروجیکٹ میں قومی شاہراہ، ریل اور پائپ لائن اور ڈولپمنٹ شامل ہیں۔ مسٹرجیٹلی نے لوک سبھا میں پوچھے گئے ایک تحریری سوال کے جواب میں کہا کہ حکومت پاکستان کے قبضے والے کشمیر میں چینی سرگرمیوں پر گہری نگاہ رکھتی ہے اور اس نے چین کو اپنی تشویشات سے بھی آگاہ کردیا ہے اور اس سے ایسی سرگرمیاں بند کرنے کوکہا ہے۔حکومت کا کہنا ہے کہ اس برس جون تک ملک کے مختلف سرحدی علاقوں سے دراندازی کے662 واقعات کی اطلاع ملی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارت۔ چین سرحد سے ملحق علاقوں میں لوگوں کوبسانے کی حکمت عملی کی اہمیت کو بھانپتے ہوئے وزارت داخلہ اور قومی سکیورٹی مشیر اجیت ڈومال سے ایکشن پلان تیار کرنے کوکہا ہے۔ اس میں فوج اور ہم تبت پولیس کی مدد لینے کو کہا ہے تاکہ اروناچل پردیش، اتراکھنڈ، ہماچل پردیش اور جموں و کشمیر میں چینی سرحد سے لگے علاقوں میں بسی آبادی ہجرت رک سکے اور لوگ یہاں بسنے میں دلچسپی لیں۔ اس کے لئے مالی پیکیج کے ذریعے مدد دینے کی بات کہی گئی ہے۔ حکومت کی اس معاملے میں سنجیدگی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت۔ چین سرحد سے لگے علاقوں سے لوگوں کی ہجرت روکنے اور وہاں بسنے کیلئے حوصلہ افزائی کے طور پر پانچ ہزار کروڑ روپے کی مالی مدد مختص کی گئی ہے۔ چین کی مسلسل دراندازی پریشانی کی بات ہے اور ہم عام واقعہ مان کر چپ نہیں بیٹھ سکتے۔ کانگریس کے ترجمان منیش تیواری کا کہنا ہے کہ جب سے نئی حکومت آئی ہے تبھی سے چین کی دراندازی بڑھی ہے لیکن اب سرکار نے کیوں آنکھ کان بند کئے ہوئے ہیں؟ آخر ان کی جارحانہ پالیسی کہاں گئی جس کا وہ اعلان کیا کرتے تھے۔ جموں و کشمیر کے وزیر اعلی عمر عبداللہ نے کہا چینی فوج ہمیشہ کہتی رہی ہے لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا کیونکہ آبادی والے علاقے نہیں ہیں ایسے معاملوں میں سرکار کچھ نہیں کرتی صرف میڈیا میں ہیں بحث چلتی ہے۔ چینی فوجیوں کی ایسی حرکتوں کو برداشت کرنا خطرناک ہوگا۔ ایک دو مہینے میں چینی فوج بڑی گھس پیٹھ کر سکتی ہے ہمیں چوکس رہنا ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟