بم بم بھولے کے نعروں سے گونجتی کشمیر وادی!

بم بم بھولے اور ہر ہر مہادیو کے نعروں کے ساتھ چھڑی مبارک یاترا امرناتھ کی پوتر گپھا کیلئے دھوم دھام سے سرینگر کے دشنامی اکھاڑے سے روانہ ہوئی۔ ہر سال منعقد ہونے والی اس یاترا کے تحت بھگوان شیو کے چاندی کے ڈنڈ کو مقامی رامیشور مندر سے امرناتھ لے جایاجاتا ہے۔چاندی کے ڈنڈ کی رکھوالی کرنے والے میہنت یوگیندر گری سمیت بڑی تعداد میں شردھالو تمام طرح کے خطرے کے باوجود یاترا میں شامل ہوئے۔ چھڑی مبارک 10 اگست کو پوتر گپھا پہنچی گی۔ اس کے ساتھ ہی بابا امرناتھ کی یاترا اختتام پذیر ہوجائے گی۔ ہر ہر مہادیو، جے کارا ویر بجرنگی اور جے بابا امرناتھ برفانی بھوکے کو ان پیاسے کو پانی کے نعروں سے جموں و کشمیر کی سرزمین پچھلے ڈیڑھ ماہ سے رونق افروز رہی۔ آنے والوں کے سیلاب میں بس ایک ہی جذبہ تھا کہ ان آتنکیوں کے خلاف اجتماعی یکجہتی کا ثبوت دینا، جو ہمیشہ یاترا پر خطرے کی شکل میں منڈراتے رہتے ہیں۔ پونے چار لاکھ کے قریب لوگ ابھی تک سالانہ امرناتھ یاترا میں شامل ہوچکے ہیں۔ نہ کوئی دھمکی نہ کوئی پابندی، نہ کوئی حادثہ اور نہ کوئی ٹریجڈی ان سب بڑھنے والوں کے قدموں کو روک پائی۔جہاں تک یاترا انتظام میں انتظامیہ کی پالیسیوں کے چلتے پھلنے والے سسٹم سے وہ دوچار ہوتے ہیں لیکن انہیں یہ بدنظمی بھی روک نہیں پائی جنہیں پارکر14500 فٹ کی اونچائی پر واقع پوتر امرناتھ گپھا میں درشن کرنے کیلئے پہنچنے والوں کے قدم نہیں رکے۔ اتنا ضرور تھا کہ پاؤں سے نہ چل پانے والے پالکی کے سہارے امرتو پانے کی چاہ میں ان گنجان پہاڑوں کی اونچائیوں کو ناپنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہاں کی چوٹی پر کھڑے ہوکر سانس لینا بھی مشکل تھا کیونکہ آکسیجن کی کمی سے سبھی دوچار ہوتے ہیں۔ یاترا میں حصہ لینا ویسے اس بار اتنا آسان نہیں تھا کیونکہ شرائین بورڈ کی ہدایتوں کے چلتے رجسٹریشن ، ہیلتھ سرٹیفکیٹ اور عمر حد کی بندشیں بھی تھیں۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ زیادہ تر حصہ لینے والے مسافروں کو اجازت پہلگام راستے کی لیتے ہیں اور چلے جارہے ہیں بال تال کے اس راستے میں جو خطرے سے بھرپور ہے لیکن ایک ہی دن میں اس راستے کا استعمال کر پوتر شیو لنک کے درشن کئے جاسکتے ہیں۔ ویسے یاترا میں ہونے والے حادثے ابھی تک40 لوگوں کی جانیں لے چکے ہیں۔ سبھی کی جانیں بدنظمی کے سبب گئیں تو ان کے ان دستاویزاتوں پر اندیشہ ہوا جو انہوں نے رجسٹریشن کرواتے وقت حکام کو دیکر کرایا تھا کہ وہ جسمانی طور پر یاترا میں حصہ لینے کے لئے ٹھیک ہیں۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ یاترا میں حصہ لینے کے لئے اس شرط کو ضروری بنادینے کے بعد سے ہی جھوٹے میڈیکل سرٹیفکیٹ اور یاترا میں حصہ لینے والے پچھلے برس بھی بہت سے۔ جن میں سے کئی کی بعد میں موت ہوگئی۔ سچائی تو یہ ہے کہ امرناتھ یاترا کے دنوں کے گزرنے کے ساتھ ہی قومی اتحاد اور سلامتی کی یاترا کی شکل میں بھی سامنے آرہی ہے۔ یاترا میں شامل ہونے والے کسی ایک پردیش کے نہیں تھے بلکہ سارے دیش کے مختلف حصوں سے آنے والے شردھالو تھے۔ کئی کے دلوں میں یہ بھی جذبہ تھا کہ کشمیر بھارت کا ہے اور وہ امرناتھ یاترا میں حصہ لیکر اس جذبے کو ظاہر کرسکتے ہیں۔ جے برفانی بابا کی ،ہر ہر مہا دیو۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟