مفلسی کا داغ مٹانا مودی حکومت کیلئے چنوتی ہے!

اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق دہلی آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا شہر بن گیا ہے۔ دنیا بھر کی میٹرو سہولیات سے وابستہ ہے۔2014ء کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے 3.8 کروڑ کی آبادی والا جاپان کا شہر ٹوکیو اکلوتا ایک ایسا شہر ہے جو دہلی (2.5 کروڑ) سے آگے ہے۔ دیش کا دوسرا سب سے بڑا شہر ممبئی ہے اور یہ فہرست میں چھٹے مقام پر ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق سال 2010ء میں دنیا کے غریب ترین لوگوں کی 1.2 ارب آبادی کا 32.9 فیصد حصہ بھارت میں تھا۔برازیل میں منعقدہ برکس چوٹی کانفرنس کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی جب بڑے فخر سے دنیا کو بھارت کی وسیع ترین نوجوان آبادی کے فائدے بتا رہے تھے تب ایک بہتر مستقبل کے تصور سے پورے دیش کا سینا چوڑا ہورہاتھا۔ آبادی کے لحاظ سے چین کے بعد ہم دنیا کا سب سے بڑا ملک ہیں اور محض ڈیڑھ دہائی کی بات ہے جب کم سے کم اس معاملے میں ہم ان سے پچھڑتے دکھائی دیں گے۔ ابھی پچھلے دنوں دنیا میں’’ یوم عالمی آبادی ‘‘ منایا گیا تھا جس میں ہندوستانی کی آبادی سوا ارب سے زیادہ بتائی گئی تھی۔ بتایا گیا تھا کہ اس میں آدھے لوگ 25 برس سے کم عمر کے ہیں جبکہ دو تہائی کی عمر 35 سے نیچے ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ واقعی تشویش کی بات ہے کہ دنیا کے بہت غریب لوگوں کا ایک تہائی حصہ ہمارے ملک میں آباد ہے۔ اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے مطابق بھارت میں بچوں کی اموات شرح سب سے زیادہ ہے۔ 2012ء میں 14 لاکھ بچوں کی موت پانچ برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے ہوجاتی ہے۔ دنیا بھر میں انتہائی مفلسی میں سسکتے ہوئے جینے والے سب سے زیادہ لوگ بھی ہندوستان میں ہی ہیں۔ جنوبی ایشیا اور افریقہ میں ایسے لوگوں کی سوا ارب آبادی ہے اس کے لئے زندگی کسی ابھیشاپ سے کم نہیں۔ ان میں سے ایک تہائی لوگ ہندوستان میں زندگی کاٹ رہے ہیں۔ ہمارے بعد چین کا نمبر آتا ہے جو اپنے معجزاتی اقتصادی ترقی کے باوجود بھی آج بھی ایسی 13 فیصد آبادی کا بوجھ رہا ہے۔ ان دونوں کے ساتھ اگر نائیجریا ،بنگلہ دیش اور کانگو نام جوڑ دئے جائیں تو ان پانچوں ملکوں میں ہی دنیا بھر کے دو تہائی غریب ترین لوگوں کا ٹھکانا تلاش کیا جاسکتا ہے۔ دراصل ہندوستان نے آبادی کے بعد سرمایہ داری ترقی پالیسی اپنانے سے دیہی معیشت کو جو جھٹکا دیا ہے اس کی بھرپائی نہیں ہوسکی ہے۔ ایک طرف تو شہروں کی ترقی ہورہی ہے لیکن دیہات میں روزگار کے وسائل ختم ہوتے گئے۔ حکومت ہند نے انسداد غربت کے لئے جو اسکیمیں چلائی ہیں ان کا مقصد غریبوں کو کسی طرح زندہ رکھنا ہے۔ ان کے روزی روٹی کے لئے مستقل وسائل قائم کرنا نہیں۔ ان پر مشکل یہ ہے کہ ان اسکیموں میں بھی کرپشن کا گھن لگا ہوا ہے۔ انتظامیہ کے نچلے سطح پر بدعنوانی کی وجہ سے اس کا فائدہ عام غریبوں تک نہیں پہنچ سکا۔ چاہے وہ عوامی تقسیم نظام ہو یا منریگا ہو ، سبھی میں دھاندلیوں کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ ہر شہری کے لئے بنیادی سہولیتیں دستیاب کرنا سرکار کی جوابدہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟