تاریخی فیصلہ کے بعد ٹکراؤ جاری رہنے کے آثار

مرکز اور دہلی حکومت کے بیچ اختیارات کو لیکر پچھلے چار سال سے جاری لڑائی بدھوار کو سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے لکشمن ریکھائیں دکھا دی ہیں۔ عدالت نے اس تاریخی فیصلہ میں موٹی موٹی کچھ باتیں طے کردی ہیں۔ اگر اس میں لیفٹیننٹ گورنر کو ان کے حقوق کی حد بتائی گئی تو یہ بھی صاف کردیا کہ دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ نہیں مل سکتا۔ دہلی حکومت اور لیفٹیننٹ گورنر کے درمیان اختیارات کی جنگ پر پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے کہا کہ اصل طاقت چنی ہوئی سرکار کی کیبنٹ کے پاس ہے اور لیفٹیننٹ گورنر کیبنٹ کی صلاح کو مانیں گے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کیبنٹ بھی اپنے سبھی فیصلوں کی جانکاری ایل جی کو ضرور دے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں فیصلوں میں لیفٹیننٹ گورنر کی رضامندی ضروری ہے۔ لیفٹیننٹ گورنر کو آزادانہ اختیار نہیں سونپے گئے۔ ایسے میں ایل جی کا رول خلل ڈالنے والا نہیں ہونا چاہئے۔ اسے مشینی طریقے سے کیبنٹ کے فیصلوں کو روکنا نہیں چاہئے۔ کیبنٹ کی کوئی رائے اگر ایل جی سے میل نہیں کھاتی تو اسے صدر کو بھیجا جاسکتا ہے۔ عدالت نے صاف کہا کہ یہاں ANY کا مطلب EVERY (ہر ایک) نہیں ہے۔ یعنی ایل جی ہر معاملہ صدر کے پاس نہیں بھیج سکتے۔ صدر جو فیصلہ لیں گے ایل جی اس پر عمل کریں گے لیکن ایل جی خود سے کوئی فیصلہ نہیں لے سکتے۔ کورٹ نے کہا کہ ایل جی کو سمجھنا ہوگا کہ یہ کیبنٹ جنتا کو جوابدہ ہے۔ دہلی ہائی کورٹ نے اگست2016 کے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ دہلی مرکزی زیرانتظام ریاست ہے اور آئین کی دفعہ 239AA کے تحت اس کے لئے خاص تقاضے طے کئے گئے ہیں۔ ایسے میں راجدھانی میں ایل جی چیف منتظم کے رول میں ہیں۔ کوئی بھی فیصلہ ان کی منظوری کے بغیر نا لیا جائے۔ اس کے بعد دہلی سرکار نے کئی عرضیاں داخل کر فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ چیف جسٹس کے رہنمائی والی آئینی بنچ نے مانا کہ دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔ دہلی میں پولیس و لا اینڈ آرڈر اور زمین کے معاملہ میں سبھی اختیارات ایل جی کے پاس ہی رہیں گے۔ بیشک کئی معنوں میں یہ فیصلہ تاریخی تھا اس فیصلہ سے دونوں فریق اپنی اپنی جیت کا دعوی کرسکتے ہیں۔ دہلی سرکار اپنے حق میں کہہ سکتی ہے لیکن کورٹ نے صاف کیا ہے کہ جنتا کے تئیں لیفٹیننٹ گورنر نہیں بلکہ چنی ہوئی سرکار جوابدہ ہے۔ وزیر اعلی اور ان کی کیبنٹ کو ہی دہلی چلانے کا حق ہے۔ سرکار کو ہمیشہ ایل جی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اختیارات میں آپسی تال میل ہو، پاور ایک جگہ ایل جی کے پاس مرکوز نہیں رہ سکتی۔ سرکار ہی سپریم ہے،کیبنٹ کے پاس ہی اصل طاقت ہے۔ ایل جی کو کیبنٹ کی صلاح پر فیصلے لینے ہوں گے اور چنی ہوئی سرکار کے کام میں ایل جی دخل نہیں دے سکتے اور وہ سرکار کے فیصلہ کو ماننے کے لئے مجبور ہیں۔ جنتا کے چنے ہوئے نمائندوں والی اسمبلی اپنا قانون بنا سکتی ہے اور ایل جی اسے روک نہیں سکتے کیونکہ ایل جی کے پاس خود سے فیصلے لینے کا اختیار نہیں ہے۔ کیبنٹ اور آئینی پاور ایل جی نظر انداز نہیں کرسکتے۔ انہیں سی ایم کے فیصلے کو روکنے کا حق نہیں ہے۔ بدامنی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ دوسری طرف جو باتیں ایل جی کے حق میں کہی گئی ہیں اس میں کہا گیا ہے دہلی مرکزی حکمراں ریاست ہے اور ریاستی سرکار کو زیاہ اختیار نہیں دئے جاسکتے۔ عدالت نے یہ بھی مانا کہ دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ ملنا ممکن نہیں ہے۔ ایل جی دہلی کے ایڈمنسٹریٹر ہیں۔ دہلی کیبنٹ کو کوئی قانون بنانے سے پہلے اور بعد میں اسے ہر حال میں ایل جی کو دکھانا ہوگا۔ دہلی کیبنٹ اور لیفٹیننٹ گورنر میں اگر کسی اشو پر اختلاف ہے تو وہ معاملہ اب بھی صدر کے پاس بھیجا جائے گا۔ کیونکہ صدر مرکزی وزارت داخلہ کی صلاح لیتے ہیں اور اس طرح مرکزی سرکار کا دبدبہ پہلے ہی طرح بنا رہے گا۔
تین اشو زمین، قانون، لا اینڈ آرڈر اور پولیس اب بھی گورنر کے ذریعے مرکزی سرکار کے ماتحت رہیں گے۔ انہی معاملوں پر دہلی حکومت قانونی لڑائی لڑتی رہی ہے۔ عدالت نے کہا کہ اگر دہلی اور مرکزی سرکار کے قانون میں کوئی تضاد ہے تو اس معاملہ میں پارلیمنٹ کا قانون ہے سپریم ہوگا۔ سپریم کورٹ نے بھلے ہی دہلی سرکار اور ایل جی کے اختیارات کی تشریح کردی ہو لیکن ہمیں شبہ ہے کہ دہلی سرکار اور ایل جی کی لڑائی رکنے والی نہیں ہے کیونکہ اب اصل مسئلہ اختیارات اورفرائض نہ ہوکر آپسی تال میل کی کمی ہے۔ بیشک سپریم کورٹ نے کچھ ایشوز کا فیصلہ کردیا ہو لیکن ابھی بھی دونوں میں اختلافات کی گنجائش باقی ہے۔ وزارت داخلہ نے 21 مئی کو نوٹی فکیشن کے تحت ایل جی کے نو ریڈیکشن کے تحت سروسز سینٹر پبلک آرڈر اور پولیس اور لینڈ سے متعلق معاملہ کو رکھا گیا ہے۔ اس میں افسر شاہی کی ملازمت سے متعلق معاملہ بھی شامل ہے۔
اس نوٹیفکیشن کے تحت دہلی سرکار کے ایگزیکیٹو پاور کو محدود کیا گیا ہے اور دہلی سرکار کے اینٹی کرپشن برانچ کا دائرہ اختیار دہلی سرکار کے اختیارات تک محدود کیا گیا۔ اس جانچ کے بعد مرکزی اختیارات کو باہر کردیا گیا ہے۔ پچھلے تین سال سے اسی لڑائی کے سبب دہلی کی ترقی متاثر ہوئی ہے۔ اب جب سپریم کورٹ نے سرکار اور ایل جی کے اختیارات کی نشاندہی کردی ہے تو اب دہلی سرکار کو اپنی وکاس یوجناؤں کو لاگو کرنے میں کوئی دقت نہیں ہونی چاہئے۔ اب تو کوئی بہانا نہیں بچا۔ اس فیصلہ میں آئین اور دہلی کے لوگوں دونوں کی جیت ہوئی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟