جموں و کشمیر میں نئے جوڑ توڑ سے سرکار بنانے کے داؤ پیچ

ایسے اشارہ مل رہے ہیں کہ جموں و کشمیر میں نئی سرکار کی تشکیل کی قواعد شروع ہوگئی ہے۔ جموں و کشمیر میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے درمیان سرکار بنانے کی قیاس آرائیوں کے درمیان بھاجپا کے سینئر لیڈر اور سابق وزیر اعلی رویندر گپتا نے کہا کہ مختلف پارٹیوں کے ناراض ممبران اسمبلی سے ریاستوں میں جلد ایک نئی سرکار تشکیل دی جاسکتی ہے۔ دراصل سب سے زیادہ بے چینی پی ڈی پی نیتا اور سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی کو ہے۔ پی ڈی پی پر ٹوٹنے کا خطرہ منڈرا رہا ہے اس لئے نئی سرکار بنانے کے لئے محبوبہ کانگریس صدر راہل گاندھی اور سونیا گاندھی سے ملنے کے لئے بے چین ہے۔ پی ڈی پی لیڈر دہلی میں ہیں اور ان کی پارٹی کے کم سے کم 11 ممبران اسمبلی ان سے ناراض بتائے جاتے ہیں۔ پی ڈی پی کے سینئر لیڈر اور سابق وزیر عمران رضا انصاری نے پی ڈی پی ۔بھاجپا اتحاد ٹوٹنے کے لئے پارٹی صدر اور سابق وزیرا علی محبوبہ مفتی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک لاچار وزیر اعلی ثابت ہوئی ہیں۔ جنہوں نے نہ صرف سیاست کے لوگوں کو مایوس کیا ہے بلکہ اپنے والد کے خوابوں کو بھی مٹی میں ملا دیا ہے۔ ادھر کانگریس نے جموں و کشمیر کے لئے بنے کور گروپ کی میٹنگ پیر کوسابق وزیراعظم منموہن سنگھ کے یہاں ہوئی۔ کور گروپ کی میٹنگ کے بعد کانگریس کی جموں و کشمیر انچارج امبیکا سونی اور پردیش صدر غلام محمد میرنے یہ ہی بتایا پارٹی سرکار بنانے کے بجائے جلد چناؤ چاہتی ہے۔ کانگریس نے پی ڈی پی کے ساتھ مل کر سرکار بنانے کی قیاس آرائیوں کو سرے سے مسترد کردیا ہے۔ سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ نے ریاست میں پی ڈی پی کے ساتھ کانگریس سرکار بنانے سے متعلق افواہوں پر منگلوار کو کہا کہ تعجب ہے کانگریس کے سینئر لیڈروں کے انکار کے باوجود کانگریس ۔ پی ڈی پی اتحادی سرکار بنانے کی قیاس آرائیوں پر روک نہیں لگ رہی ہے۔ فی الحال ریاست میں گورنر راج لاگو ہے۔ عبداللہ نے بھاجپا پر اقتدار حاصل کرنے کے لئے ممبران اسمبلی کی خریدو فروخت کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اسمبلی کو فوراً بھنگ کر نئے چناؤ کرانے کی مانگ کی ہے۔ ہماری رائے میں بھی جموں و کشمیر میں کسی بھی جوڑ توڑ سے بنی سرکار نہ تو زیادہ دن تک چل سکتی ہے اور نہ ہی یہ وہاں کی جنتا کا بھلا کرسکتی ہے۔ ذاتی اغراض پر مبنی گٹھ جوڑ والی نئی سرکار نہ تو ریاست میں امن بحال کر پائے گی اور نہ ہی استحکام دے پائے گی۔ نئے چناؤ ہی آخری متبادل ہیں۔ 2019 کے لوک سبھا چناؤ کے ساتھ جموں وکشمیر اسمبلی چناؤ کرائے جاسکتے ہیں۔ تب تک گورنر راج ہی ٹھیک رہے گا کیونکہ جموں و کشمیر کے جو حالات بن چکے ہیں انہیں ٹھیک کرنے میں بھی ابھی وقت لگے گا۔ جموں و کشمیر ایسی ریاست ہے جہاں کسی طرح کا عدم استحکام ملک کے مفاد میں نہیں ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟