آئی ڈی بی آئی کے گھوٹالوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش

جس طرح سے دیش کی سب سے بڑی کمپنی ایل آئی سی نے آئی ڈی بی آئی بینک کی 50 فیصد سے زیادہ سانجھیداری کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے اس سے دیش کے بینکنگ سیکٹر میں کھلبلی مچنا فطری ہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سرکار قرض میں ڈوبے بینکوں کو اب اسی طرح اپنی بڑی کمپنیوں میں کھپانے کے پلان کو قطعی شکل دینے میں لگ گئی ہے۔ سرکار یہ بھی چاہتی ہے کہ دیش کے سرکاری بینکوں سے اب تک جن بڑی کمپنیوں نے بھاری قرض لے رکھے ہیں اور لوٹائے نہیں ہیں ایسے بینکوں کو دیش کی بڑی کمپنیوں میں ملانے کے کام کو بھی انجام دیا جارہا ہے۔ زندگی بیمہ کارپوریشن (ایل آئی سی) کو بیمہ ریگولیٹری اینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایرڈا) نے قرض میں ڈوبے آئی ڈی بی آئی بینک میں 50 فیصدی حصہ داری لینے کو منظوری دے دی ہے۔ اب اس کے بعد ایل آئی سی کا بینک سیکٹر میں اترنے کا راستہ صاف ہوگیا ہے جس کے بعد پہلے سے جمے جمائی کئی بینکوں کو سخت ٹکر ملنے کی امید ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ فیصلہ حیدرآباد میں ایرڈا کے سرمایہ زونل کی میٹنگ کے دوران لیا گیا۔حال ہی میں آئی ڈی بی آئی میں ایل آئی سی کی حصہ داری 11فیصدی ہے۔ ایک اعدادو شمار کے مطابق ہر سال ایل آئی سی قریب 20 لاکھ پالیسی جاری کرتی ہے۔ ایل آئی سی کے پاس 250 ملین لوگوں کے مستقبل کی حصے داری ہے جنہوں نے ایل آئی سی سے قریب 300 ملین لائف انشورنس پالیسی لے رکھی ہے۔ ایل آئی سی کے پاس سالانہ تین لاکھ کروڑ روپے کی پریمیم جمع ہوتی ہے۔ ایل آئی سی اپنے پاس جمع سرمائے کے ذریعے آئی ڈی بی آئی بینک میں سرکار کی حصے داری کو خریدے گا۔ آئی ڈی بی آئی بینک میں مرکزی سرکار کی 85 فیصدی حصے داری ہے اور مالیاتی برس 2018 کے دوران بینک کی 10610 کروڑ روپے کی مدد بھی کی تھی۔ کانگریس نے سنیچر کو الزام لگایا کہ موی سرکار ایل آئی سی سے کروڑوں لوگوں کی گاڑھی کمائی کا استعمال اپنے عہد میں ہوئے بینک گھوٹالہ کی بھرپائی کے لئے کرنا چاہتی ہے اور اس لئے قواعد کو طاق پر رکھ کر پبلک سیکٹر کے آئی ڈی بی آئی بینک کے شیئر خریدنے کے لئے اسے مجبور کررہی ہے۔ پارٹی نے کہا ہے کہ سرکار بینک گھوٹالوں پر پردہ ڈالنے کے لئے ہر کوشش میں لگی ہے اور اسی کے لئے اس نے 38 کروڑوں لوگوں کی ایل آئی سی میں جمع گاڑھی کمائی پر سیند لگانے کا راستہ نکالا ہے۔ ایل آئی سی بہت خراب حالت میں چل رہی ہے۔ آئی ڈی بی آئی بینک کے شیئر خریدنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ مودی سرکار کی پالیسیوں کے سبب دیش کی معیشت پہلے ہی گہرے بحران میں چل رہی ہے۔ اس سرکار نے بغیر سوچے سمجھے آدھا ادھورا گڈ اینڈ سروس ٹیکس (جی ایس ٹی) لاگو کردیا اور بغیر ہوم ورک کئے نوٹ بندی کی جس کا خمیازہ دیش کی جنتا کو بھگتنا پڑ رہا ہے اور اب ایل آئی سی کو مجبور کیا جارہا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟