سوئس بینکوں میں بھارت کی دھوم

یقینی طور سے یہ جانکاری حیران و پریشان کرنے والی ہے کہ سوئس بینکوں میں ہندوستانیوں کی جمع رقم میں بھار ی اضافہ ہوا ہے۔ کالے دھن میں کمی کرنے والی مودی سرکار کے لئے سوئس نیشنل بینک کی طرف سے جاری تازہ رپورٹ بڑے جھٹکے سے کم نہیں ہے۔ سوئس نیشنل بینک نے 28 جون کو اپنے یہاں غیرملکیوں کی جمع رقم کے بارے میں جو اعدادو شمار جاری کئے ہیں وہ بھارت سرکار کے دعوے کونظر انداز کرنے والے ضرور ہیں اور کرپشن کے خلاف ہونے والی سرکار کی لڑائی کے دعوی کی پول کھولتے ہیں۔ اس کے مطابق سوئس بینکوں میں ہندوستانیوں کا پیسہ 50 فیصد بڑھ کر تقریباً 7 ہزار کروڑ روپے ہوگیا ہے۔ ہندوستانیوں کے ذریعے سوئس بینک کھاتوں میں سیدھے طور پر رکھا گیا پیسہ بڑھ کر 99.9 کروڑ فرینک (سی ایم ایف) اور دوسروں کے ذریعے سے جمع کرایا گیا پیسہ بھی بڑھ کر 1.6 کروڑ سوئس فرینگ ہوگیا ہے۔ اعدادو شمار کے مطابق سوئٹزرلینڈ کے بینک کھاتوں میں غیر ملکی گراہکوں کا کل پیسہ 1460 ارب سوئس فرینک یا 100 لاکھ کروڑ سے زیادہ ہے۔ کالے دھن کے خلاف مہم کے باوجود یہ تشویش کی بات ہے کہ سوئس بینکوں میں ہندوستانیوں کے پیسے میں اضافہ ہوا ہے۔ ہندوستانی اپنی کالی کمائی رکھتے رہے ہیں کیونکہ ان بینکوں میں گراہکوں کی اطلاعات کو بیحد خفیہ رکھا جاتا ہے۔ یہاں آپ کے کھاتوں کو اتنا خفیہ رکھا جاتا ہے کہ آپ کے اکاؤنٹ نام سے نہیں ہوتے بلکہ آپ کو ایک نمبر دیا جاتا ہے ، یعنی نمبر سے ہی آپ کا اکاؤنٹ آپریٹ ہوتا ہے۔ کالا دھن رکھنے والے جو اکاؤنٹ کھلواتے ہیں اسے نمبر اکاؤنٹ کہا جاتا ہے۔ اس میں ٹرانسزیکشن کے وقت کاسٹر کے نام کے بجائے صرف اسے ہی دی گئی آئی ڈی کا استعمال ہوتا ہے۔ اس کے لئے سوئٹزرلینڈ میں فزیکل طور پر جانا ضروری ہوتا ہے۔ خود جاکر بینک سے کیش نکالنا ہوتا ہے۔ اس ڈائریکٹ کیش نکالنے سے پرائیویسی بنی رہتی ہے کیونکہ ٹرانسزیکشن ریکارڈ صرف بینک کے پاس ہوتا ہے۔ ٹریولرچیک کا استعمال کرنا آسان ہے اور یہ ہر جگہ قبول کئے جاتے ہیں لیکن اس چیک کی رقم کے حساب سے بینک کو ایک فیصدی کمیشن دینا پڑتا ہے۔ آپ 68 لاکھ روپے سے کھاتا کھلوا سکے ہیں۔ سوئس بینک میں اکاؤنٹ سوئس بینکوں میں جمع ہونے والی ہندوستانیوں کی رقم میں 2017 میں 50 فیصد کا اضافہ یہ بتاتا ہے کہ کالے دھن کے کاروباری سرکار سے زیادہ چالاک ہیں۔ سرکار اگر ڈال ڈال ہے تو وہ پات پات ہیں ورنہ کیا وجہ ہے 2016 سوئس بینکوں میں جمع ہونے والا ہندوستانیوں کا پیسہ 45 فیصد گرا تھا لیکن اگلے ہی برس اس میں اچھال آگیا۔ پیسے میں تین برسوں تک ہارس کا دور رہا اور ہندوستانی معیشت اور سرکار کو ایک طرح کی خوشی کا تجربہ ہوتا ہے۔ سرکار یہ بھی دعوی کرنے لگی تھی اس کی کوششوں سے اچھے نتیجے آنے لگے ہیں۔ کرپشن مٹانے ،بیرونی ممالک میں جمع کالا دھن دیش میں واپس لانے سے لیکر کھاتے میں 15 لاکھ روپے جمع کرنے کے وعدہ کے ساتھ اقتدار میں آئی مودی سرکار نے کالے دھن پر کارروائی کے لئے کئی قدم اٹھانے کا دعوی کیا۔ سپریم کورٹ میں دائر عرضی کے تحت اسپیشل تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) بنائی گئی۔ بیرونی بینکوں نے کئی کھاتہ داروں کے نام بھی بینکوں کو دئے حالانکہ وہ نام کبھی اجاگر نہیں کئے گئے۔ کانگریس صدر راہل گاندھی نے جمعہ کو کہا کہ 2014 میں وزیر اعظم نے کہا تھا کہ میں سوئس بینکوں میں جمع کالی کمائی واپس لاؤں گا اور ہر ہندوستانی کے کھاتے میں 15 لاکھ روپے ڈالوں گا۔ 2016 میں انہوں نے کہا نوٹ بندی سے کالے دھن سے نجات مل جائے گی۔2018 میں وہ (پردھان منتری) کہتے ہیں کہ سوئس بینکوں میں ہندوستانی شہریوں کے ذریعے جمع کرائے جانے والے پیسے میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے اور یہ سفید دھن ہے، سوئس بینکوں میں کوئی کالا دھن نہیں ہے۔ اسی مسئلہ پر پارٹی ترجمان سابق مرکزی وزیر آر پی این سنگھ نے اخبار نویسوں سے کہا کہ وزیراعظم کو بتانا چاہئے آخر کیا وجہ ہے کہ اس سے پہلے برس 2004 میں سوئس بینکوں میں ہندوستانیوں کی جمع رقم کا نیا ریکارڈ بنا تھا تب بھی مرکز میں بھاجپا کی رہنمائی والی این ڈی اے سرکار تھی اور آج بھی مرکز میں وہ ہی سرکار ہے اور ایک بار پھر سے سوئس بینک میں ہندوستانیوں نے بھاری رقم جمع کرائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سرکار کے رہتے بھگوڑے دیش کا 70 ہزار کروڑ روپے لے کر بھاگ گئے ہیں۔ سوئس بینکوں میں ہندوستانیوں کی جمع رقم میں اچھال کی ان خبروں کے بیچ وزیر مملکت خزانہ پیوش گوئل نے حیرت ظاہر کی کہ سارے دھن کو کیسے کالا دھن مانا جاسکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم کے وقت سے باہر بھیجنے کی یوجنا شروع ہوگئی تھی۔ اس یوجنا سے ہندوستانیوں کی جمع رقم میں اضافہ ہوا ہے۔ حالانکہ سرکار نے کہا ہے کہ اس میں کسی طرح کی گڑ بڑی پائے جانے پر کارروائی کی جائے گی۔ وزیر موصوف گوئل نے کہا کہ بھارت کو ایک باہمی معاہدہ کے تحت سوئٹزر لینڈ سرکار کی طرف سے وہاں کے بینکوں میں ہندوستانیوں کے کھاتوں سے متعلق معلومات اگلے سال سے ملنا شروع ہوجائیں گی۔ ادھر دوسرے وزیرخزانہ ارون جیٹلی نے جمعہ کو خبر دار کیا کہ سوئس بینکوں میں ناجائز طور سے پیسہ جمع کرانے والے ہندوستانیوں کی پہچان چھپانا اب مشکل ہوجائے گا اور ایسے لوگوں پر کالا دھن انسداد قانون کے تحت سخت سزا دینے والی کارروائی ہوگی۔ یکم جنوری سے وہاں ہندوستانیوں کے کھاتوں کے بارے میں سوئٹزرلینڈ سے اطلاعات ملنی شروع ہوجائیں گی۔ جیٹلی نے کہا سوئٹزرلینڈ ہمیشہ سے معلومات شیئرکرنے کا خواہشمند رہا ہے۔ الپائن ملکوں نے اپنے گھریلو قوانین میں ترمیم کردی ہے جن سے اطلاعات شارے عام کرنے کے قاعدے بھی شامل ہیں۔ 2016 میں نوٹ بندی جیسا سخت اور چونکانے والا قدم بھی بھارت سرکار نے اٹھایا ہے جس کے تلسماتی اثر کے بارے میں کئے گئے دعوی ابھی تک کسوٹی پر کھرے نہیں اترے۔ ریزرو بینک ابھی بھی گھریلو کالے دھن کے بارے میں واضح طور سے کوئی تفصیل نہیں جاری کرسکا ہے۔ اس موقعہ پر سوئس بینکوں کی طرف سے جاری اعدادو شمار یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کیا نوٹ بندی کے مضر اثرات سے بچنے کے لئے امیر ہندوستانیوں کی طرف سے اٹھایا گیا یہ قدم تو نہیں ہے کیونکہ جب گھریلو سطح پر کالے دھن کورکھنے اور چلانے کی گنجائش نہیں بچتی تبھی اسے باہر لے جایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دیگرمعاہدوں میں آنے والا کمیشن بھی بینک میں جمع کیا جاتا ہے۔ حالانکہ تشفی اس بات کی بھی ہے کہ 2017 میں سات ہزار کروڑ روپے کا سوئس بینک میں جمع پیسہ 2006 سے 23 ہزار کروڑ روپے سے کافی کم ہے۔ بہتر یہ ہے جب تک سوئٹزرلینڈ سے درکار جانکاری نہیں ملتی تب تک سرکار یہ دیکھے ، سمجھے کہ سوئس بینک ہندوستانیوں کے پسندیدہ بینک کیوں بنے ہوئے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟