سلوندر ڈرگ ریکٹ میں شامل تھا، کیا ٹیرر سے بھی ملی بھگت تھی

قارئین کو یاد ہوگا جب پٹھانکوٹ آتنکی حملہ ہوا تھا اور گورداس پور کے ایس پی سلوندر سنگھ کا کردار سامنے آیا تھا تو میں نے اسی کالم میں لکھا تھا کہ سلوندر سنگھ اس حملے میں کسی نہ کسی شکل میں شامل ضرور ہے۔ میرا یہ اندازہ صحیح نکلا۔ سلوندر سنگھ سرحد پار سے ہونے والی ڈرگ اسمگلنگ میں شامل تھا۔ این آئی اے ہیڈ کوارٹر میں اس سے6 دن کی پوچھ تاچھ میں یہ صاف ہوگیا ہے۔ سلوندر سنگھ فائدے اور لالچ کے چکر میں ہی ان کی گاڑی آتنکیوں کے ہاتھ لگ گئی اور وہ بے روک ٹوک آگے بڑھ گئے۔ سلوندر سنگھ کا معاملہ اب فائنل اسٹیج کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پولی گراف ٹیسٹ کرانے کے فیصلے کا مطلب یہی ہے کہ متعلقہ شخص پر شک ہی نہیں بلکہ اب وہ بڑے شک کے دائرے میں آچکا ہے اور جانچ میں مدد نہیں کررہا ہے۔ تفتیش کررہے افسروں کا بھی ماننا ہے کہ انہیں کئی مقامات سے یہ معلومات ملی ہے کہ سلوندر کے تار ڈرگ سنڈیکیٹ سے جڑے ہوئے ہیں۔ وہ پاکستان سے آنے والی نشیلی چیزوں کی کھیپ کو پار لانے اور کچھ دن چھپانے اور پھر کھیپ کوآگے لے جانے میں مدد کیا کرتاتھا۔ ہر کھیپ کے عوض میں اسے پیسے ملا کرتے تھے۔ کئی بار پیسے کی جگہ ہیرے کے زیورات بھی دئے جاتے تھے۔ جوہری راجیش ورما کو اپنے ساتھ لے جانے کے پیچھے یہی وجہ تھی کہ وہ فوراً ہیرے کی پہچان کر اس کی قیمت بتا دیتا تھا۔ جانچ سے جڑے این آئی اے کے افسران کوشبہ ہے کہ دہشت گردوں کو ڈرگ اسمگلر سمجھ کر جیولر راجیش ورما جو گاڑی چلا رہے تھے، نے گاڑی آہستہ کردی تھی اس کا فائدہ اٹھا کر دہشت گردوں نے انہیں قبضے میں لے لیا۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردوں نے انہیں جان سے مانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ راجیش ورما کے علاوہ دواور جوہری بھی اس دھندے میں شامل تھے۔ سلوندر اپنے دو باورچی اور دوتین مقامی لوگوں کی مدد بھی لیتا تھا۔ڈرگ کے بڑے کاروباریوں کے علاوہ چھوٹے دھندے بازوں سے بھی مدد لی جاتی تھی۔ اس پورے سنڈیکیٹ کے کئی لوگوں کے بارے میں این آئی اے کو جانکاری ملی ہے۔ یہ بھی تصدیق ہورہی ہے کہ سلوندر اپنے باورچی مدن گوپال، جیولر راجیش ورما کو ساتھ لیکر 31 دسمبر کی رات بتیچال علاقے کی درگاہ پر سودے بازی کے لئے گیا تھا اور وہیں کا وقت دیا گیا تھا۔ این آئی اے باورچی اور درگاہ کے مجاور کو آمنے سامنے بٹھا کر سلوندر سے پوچھ تاچھ کرچکی ہے۔ سلوندر کے بیان ان سے میل نہیں کھا رہے ہیں۔ یہی نہیں ان کی سرگرمیوں کے بارے میں اکٹھا کئے گئے الیکٹرانک ثبوت بھی بیان سے میل نہیں کھاتے۔ جیسے سلوندرسنگھ 9 بجے درگاہ پرجانے کی بات پر آڑے ہوئے ہیں جبکہ ایک ٹول پلازہ پر رات10.30 بجے ان کی گاڑی جاتی دیکھی گئی۔ اس ٹول پلازہ سے درگاہ کا راستہ ایک گھنٹے کا ہے۔ اس کے علاوہ سلوندر اس بات کا بھی ٹھوس ثبوت نہیں دے پارہے ہیں کہ لوٹتے وقت لمبا راستہ انہوں نے کیوں اپنایا جبکہ رات کافی ہوگئی تھی؟ 31 دسمبر کی رات سلوندر بتیچال علاقے کی درگاہ پر سودے بازی کیلئے ہی گیا تھا،پچھلی کھیپ کی ادائیگی لی جانی تھی اور تازہ کھیپ آگے پار لگانی تھی لیکن جو لوگ آئے وہ ڈرگ مافیہ کے لوگوں کے بجائے دہشت گرد نکلے؟ سلوندر نے ابھی تک کچھ قبول نہیں کیا ہے۔ وہ جانچ افسروں کے سوالوں کے جواب یا تو گھما دیتے ہیں یا جواب دیتے ہی نہیں۔ اپنی سکیورٹی اور ڈرائیور کے بجائے بارڈر ایریا میں گھنی رات میں باورچی اور جیولر کو ساتھ کیوں لے گئے؟ اس کا جواب سلوندر سے ابھی تک نہیں ملا ہے۔ سلوندر کا لائی ڈیٹیکٹر ٹیسٹ منگل کو کیا گیا۔ اس کے ساتھ ضرورت پڑنے پر این آئی اے سلوندر کے باورچی اور درگاہ کے بابا و راجیش ورما کا بھی لائی ڈیٹیکٹر ٹیسٹ کرا سکتی ہے۔ سلوندر کا لائی ڈیٹیکٹر ٹیسٹ اگلے دن بھی جاری رہا۔ دیکھیں کہ اس لائی ڈیٹیکٹر ٹیسٹ میں کتنی کامیابی ملتی ہے اور سچائی سامنے آتی ہے یا نہیں؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟