دہشت گردی کیخلاف پوری دنیا کو متحد ہونا ہوگا

پیرس کے دہشت گردانہ حملے کے بعد دہشت گردوں کے حملوں کا ایسا سلسلہ شروع ہوا ہے کہ آئے دن دنیا کے کسی نہ کسی کونے سے ایسے حملوں کی خبریں آرہی ہیں۔ گذشتہ دو تین دنوں سے دنیا کے الگ الگ حصوں میں یہ دہشت گرد دھماکے کررہے ہیں۔ پہلے ترکی کی راجدھانی استنبول میں پھر پاکستان کے کوئٹہ میں پھرافغانستان کے جلال آباد میں اور پھر انڈونیشیا کی راجدھانی جکارتہ میں اور یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ دیکھا جائے تو دسمبر میں فرانس کی راجدھانی پیرس میں جو دھماکے کئے گئے تھے اس کے بعد ایسے دھماکوںیا ایسی کوششوں کا سلسلہ جاری ہے۔زیادہ تر معاملوں میں دہشت گرد تنظیم آئی ایس آئی ایس کا ہاتھ ہے اور ان میں خودکش دھماکوں کے ساتھ گولہ باری کرنے کی حکمت عملی اپنائی جارہی ہے۔ انڈونیشیا کی راجدھانی جکارتہ میں سیریل بم دھماکوں کی ذمہ داری لیکر آئی ایس آئی ایس نے اپنا جغرافیائی دائرہ اچانک بڑھادیا ہے۔ فرانس میں ہوئے زبردست حملے کے باوجود ابھی تک اس دہشت گرد تنظیم کو پشچمی ایشیا اور اتری افریقہ کے کچھ ملکوں تک ہی محدودمانا جارہا تھا۔ سیریا میں روسی مداخلت کے بعد یہ بھی مشتہر کیاگیا کہ آئی ایس آئی ایس پر دباؤ برھ رہا ہے اور وہ اپنی زمین کھوتے جارہے ہیں۔ انڈونیشیا پولیس کو یہ اطلاع کافی پہلے سے تھی کہ اس کے لگ بھگ 100شہری آئی ایس آئی ایس میں شامل ہیں جبکہ دیش میں قریب ایک ہزار لوگ اس تنظیم کے ہمنوا ہیں۔ واضح رہے کہ جہادی دہشت گرد تنظیموں کا انڈونیشیا میں اثر پہلے بھی کچھ کم نہیں رہا۔ کچھ معاملوں میں دوسری دہشت گرد تنظیموں کا نام بھی آرہا ہے جیسے کوئٹہ میں پاکستانی تحریک طالبان کا نام ہے اور پوربی ترکی میں کار بم دھماکوں کے پیچھے کرد باغیوں کا ہاتھ بتایا جاتا ہے۔ آئی ایس آئی ایس کے دہشت گردوں کی دنیا بھر میں اس طرح کی سرگرمی سے معلوم ہوتا ہے کہ آئی ایس آئی ایس کا جال کتنی دور تک پھیلا ہے۔ زیادہ تر حملہ آور یا تو سیریا یا عراق میں آئی ایس آئی ایس کی مہم میں حصہ لیکر لوٹے نوجوان ہیں یا پھر اپنے ہی ملک میں انہیں آئی ایس آئی ایس کی کٹرپنتھی اور دہشت گردی کے نظریئے کی حمایت کرنے والا بنایا گیا ہے۔ موجودہ سال2016 ء کے کل پہلے15 دنوں میں لگ بھگ روز ہی کہیں نہ کہیں کسی بڑے دہشت گردانہ حملے کی خبر آئی ہے جس میں تین طرح کے دہشت گرد تنظیم کا ہاتھ ثابت ہوتا ہے۔ ایک وہ جو آئی ایس آئی ایس سے جڑے ہیں دوسرے وہ جن کا رشتہ آج بھی القاعدہ سے بنا ہوا ہے اور تیسرے وہ جو کسی نہ کسی دیسی محاورے کے تحت اپنی دہشت گردانہ سرگرمیاں چلاتے ہیں۔ایسے حملے بھارت کے علاوہ ترکی، سیریا، عراق، لیبیا اور اب انڈونیشیا میں سننے کو ملے ہیں۔ ان حملوں میں یہ تشویش سچ ثابت ہوتی ہے کہ آئی ایس آئی ایس نے تمام ملکوں میں اپنے حمایتیوں کا ایک جال بچھا رکھا ہے جو کبھی بھی اپنے آقاؤں کے اشاروں پر واردات کرنے کیلئے تیار ہیں۔ یہ لوگ کس قدر کٹر وادی نظریئے کی گرفت میں آگئے ہیں یہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر حملوں میں خودکش حملہ آوروں کا استعمال کیا گیا ہے اور جن لوگوں نے گولہ باری کی وہ بھی مرنے کے لئے تیار ہوکر آئے تھے۔ روس نے ترکی کے استنبول میں ہوئے آتنکی بم دھماکوں کے بعد دنیا کے سبھی دیشوں سے آتنک واد کے خلاف متحد ہونے کی اپیل کی ہے۔ روس کے ودیش منترالیہ نے دھماکوں کے بعد جاری ایک بیان میں کہا کہ لگاتار بڑھتے دہشت گردانہ حملوں کودیکھتے ہوئے اب سبھی ملکوں کو بنا دیر کئے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے متحد ہو جانا چاہئے اور بین الاقوامی سطح پر مشترکہ فوج بناکر ان کے خلاف مہم چلانا ہوگی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ آتنک واد کے جڑسے خاتمے کے لئے سبھی ملکوں کو متحد ہوکر جس فوج کا قیام کرناہوگا اس کا فارمیٹ سیریا میں آئی ایس آئی ایس کے خلاف چھیڑے امریکی گٹھ بندھن سینا سے بھی بڑھ کر ہو۔وقت آگیا ہے کہ آتک واد سے لڑنے کے لئے ساری دنیا متحد ہوجائے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟