کچا تیل کافی سستا ہونے پر بھی صارفین کو راحت نہیں

بین الاقوامی بازار میں کچے تیل کی قیمت 12 سال کے ریکارڈ میں کم از کم سطح پر پہنچ گئی ہے۔ جمعہ کو بازار میں کچے تیل کے دام گر کر30 ڈالر بیرل سے نیچے آگئے ہیں۔ اس گراوٹ کے مقابلے بھارت میں لوگوں کو پیٹرول۔ڈیزل کی قیمتوں میں کوئی خاصی راحت نہیں ملی ہے۔ پیٹرول۔ ڈیزل کے داموں میں معمولی کمی کی گئی ہے۔ دام گرنے کے ساتھ ہی سرکار نے اس پر لگنے والی ایکسائز ڈیوٹی میں ایک بار پھر اضافہ کردیا ہے۔ نومبر 2004 ء سے لیکر اب تک کچا تیل قریب56فیصدی سستا ہوچکا ہے لیکن دیش میں پیٹرول صرف7.5 فیصد ہی سستا ہوا ہے۔ ایران سے پابندی ہٹتے ہی بازار میں تیل کی سپلائی بڑھ جائے گی۔ امید تو یہ ہی جتائی جارہی ہے کہ قیمتی25 ڈالر فی بیرل بھی پہنچ سکتی ہیں۔ بین الاقوامی بازار میں موجودہ قیمتیں گھٹنے کا زیادہ فائدہ اس لئے نہیں ہوا کیونکہ آپ کو یہ جانکاری حیرانی ہوگی کہ جس پیٹرول کو ہم 66.59 روپے میں خریدتے ہیں اس میں سے 19.36 روپے ایکسائز ڈیوٹی کی شکل میں مرکز کو جبکہ 16.80 پیسے ویٹ کی شکل میں ریاستی سرکار کو چکاتے ہیں۔ یعنی 36.16 روپے ۔ وہیں پیٹرول کمپنیاں سیدھے طور پر 6.40 پیسے کما رہی ہیں جبکہ ڈیلر 2.25 روپے یعنی 21 کا پیٹرول ہم تک پہنچتا ہے اور 45 روپے ٹیکس اور دیگر خرچ مل کر قریب66 روپے ہوجاتا ہے۔ صوبے کی پیٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ صوبے میں 5 فیصدی اینٹری ٹیکس لیا جاتاہے لیکن ڈیلروں کو انوائس میں اس کا تذکرہ نہیں ہورہا ہے۔پیٹرول پر ویٹ کی شرح آندھرا پردیش اور جھارکھنڈ کے بعد دیش میں سب سے زیادہ ہے۔ گراہکوں کو اس کا نقصان الگ سے ہورہا ہے۔ مودی سرکار اقتدار میں آنے کے بعد پیٹرول اور ڈیزل کے داموں کو گھٹانے کا دعوی کررہی تھی لیکن سچ یہ ہے کہ جولائی 2014ء سے اب تک پیٹرول کے دام میں 22 مرتبہ اور ڈیزل کے دام میں 18 مرتبہ کٹوتی کی گئی لیکن دوسری طرف سرکار کا ایکسائز ڈیوٹی بڑھانا بھی جاری رہا۔ یہی وجہ ہے کہ کچے تیل کے دام میں گراوٹ کے مقابلے میں صارفین کو زیادہ فائدہ نہیں ہوا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟