ایران میں ایک نئے دور کا آغاز
پچھلے سال جولائی میں دنیا کی بڑی طاقتوں کے ساتھ ہوئے نیوکلیائی معاہدے کے نافذ ہونے کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران پر لگی اقتصادی پابندیاں ہٹا لی گئیں ہیں اور اس کے ساتھ ہی دیش نے اپنے بین الاقوامی اکیلے پن کو ختم کرنے کی سمت میں ایک بڑا قدم بڑھا لیا ہے۔ سال 2013ء میں حسن روحانی نے ملک کا صدر بننے کے بعد14 جولائی کو ویانا معاہدے کی سمت میں بیحد مشکل سفارتی کوششیں شروع کرنے میں مدد کی تھی۔ روحانی نے کل کہا یہ صبر رکھنے والے دیش ایران کے لئے بڑی جیت ہے۔ وہ عالمی طاقتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے یوروپی فیڈریشن کی خارجہ پالیسی چیف فیڈریکا موچھے شینی نے کہا کہ اس کے نتیجے میں ایران کے نیوکلیائی پروگرام سے وابستہ کثیر خطہ اور قومی اقتصادی و مالی پابندیاں ہٹا لی گئی ہیں۔ دراصل1978ء میں اسلامی انقلاب کے بعد سے ایران کے الگ تھلگ پڑنے کی شروعات ہوئی تھی، پھر عراق کے ساتھ8 سال چلی جنگ نے اسے تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ اس کے کچھ وقت بعد نیوکلیائی ہتھیار بنانے کی جو مہم ایران کی کٹر پسندسیاسی لیڈر شپ کے ذریعے شروع کی گئی، اس نے تو اس کے وسیع جغرافیہ کو نقشے پر ایک خالی جگہ میں ہی تبدیل کرکے رکھ دیا۔ امریکی صدر براک اوبامہ کا یہ تاریخی کارنامہ مانا جائے گا کہ انہوں نے دنیا کے مین اسٹریم میں پہلے کیوبا اور اب ایران کی واپسی کا راستہ بنایا۔ کہا جارہا ہے کہ اقتصادی پابندیاں ہٹنے سے ایران کو غیر ملکی بینکوں میں جمع اپنے 100 ارب ڈالر واپس ملے جائیں گے۔ بیرونی ممالک میں بننے والی چھوٹی موٹی چیزوں کے لئے بھی ترس جانے والی و افراط زر کی زبردست قلت سے لڑ رہی ایرانی آبادی کے دن اچھے آگئے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایران اب بھارت سمیت دنیا کے کسی بھی ملک سے آسانی سے تجارت کر سکے گا اور خاص طور پر تیل کی برآمدات پر بھی انحصار اسکی معیشت آنے والے دنوں میں ایک پائیدار صورت لے سکے گی۔ ایران اس وقت جشن میں ڈوبا ہوا ہے۔ اپنے اوپر سے اقتصادی پابندی ہٹنے سے ایرانیوں کی خوشی جائز سمجھی جاسکتی ہے۔ اقتصادی تنگی اور مشکلوں سے لڑ رہا ایران ایک نئے دور میں قدم رکھ رہاہے۔ اس کے صدر حسن روحانی نے پابندیوں میں راحت کی تعریف کرتے ہوئے ایک شاندار کامیابی اور اہم موڑ بتایا ہے۔ ایرانی میڈیا نے خاص لہجے میں ایک نئے دور کے آغاز کا خیر مقدم کیا ہے اور اس نے کافی تصوراتی و معجزاتی عنوانات کا استعمال کیا ہے۔ ایران پر لگی بین الاقوامی پابندی ہٹنے سے دنیا بین الاقوامی ڈپلومیسی میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ تاریخ میں ہمیشہ ہی ایک بڑی ثقافتی اور سیاسی اور اقتصادی طاقت ہونے کے باوجود یہ دیش کافی عرصے سے حاشیے پر پڑا ہوا تھا۔ ایران کے نئے وجود سے سب سے بڑا خطرہ سعودی عرب کو محسوس ہوگا، جو اس سے نکلنے کے لئے کسی بھی اول جلول حرکت میں اترسکتا ہے۔ ویسے امریکی صدر براک اوبامہ کیلئے ایران سے پابندی ہٹانے کا ایک مقصد یہ بھی رہا ہے کہ شام اور عراق میں آئی ایس آئی ایس کی سرگرمیوں پر لگام لگائی جاسکے لیکن خطرہ بھی برقرار ہے کہ کہیں اس بات کو لیکر لبنان، بحرین، یمن میں بھی ایران اور سعودی عرب کی درپرہ جنگ نہ شروع ہوجائے۔ روس پابندیوں کے ہٹنے کا خیر مقدم کرے گا کیونکہ ایران، عراق اور شام کیساتھ وہ آئی ایس آئی ایس کے خلاف مشترکہ محاذ طے کرے گا۔ چونکہ ایران شیعہ ملک ہے اس لئے بھی وہابی سعودی عرب کو ایران کا خوف ہے اور بھارت اور ایران کے ہمیشہ سے قریبی رشتے رہے ہیں۔ بھارت کو اب دوستی کا اور فائدہ ملے گا۔ کل ملا کر ایران سے پابندی ہٹنے کا خیر مقدم کرنا چاہئے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں