وگیان بھون سے نصیحت لینا آسان ہے اسے بنیادی سطح تک لاؤ تم مانیں!

فرقہ وارانہ نفرت دور کرنے کے لئے بلائی گئی قومی ایکتا پریشد کی میٹنگ کا افتتاح کرتے ہوئے وزیر اعظم منموہن سنگھ نے مظفر نگر فسادات کو سیاسی نفع نقصان کے نظریئے سے دیکھنے والوں کو آڑے ہاتھوں لیا اور ساتھ ہی کہا فساد کرنے یا پھیلانے والوں پر سخت کارروائی ہو، چاہے وہ کسی بھی پارٹی کا کیوں نہ ہو۔ کشتواڑ، مظفر نگر، نوادہ میں فرقہ وارانہ فسادات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی سرکاروں کو ایسے واقعات سے سختی سے نمٹنا چاہئے اور بھی بہت کچھ کہا۔ وگیان بھون میں بلائی گئی قومی ایکتا پریشد کی میٹنگ میں تقریر کرنے میں اور اصلیت میں بہت فرق ہے۔ وزیر اعظم نے جوکہا اس سے سبھی متفق ہوں گے اور ہونا بھی چاہئے لیکن کیا حقیقت میں ایسا ہورہا ہے؟ ہم وزیر اعظم سے بھی پوچھتے ہیں کہ آج پورے دیش میں فرقہ وارانہ شورش کیلئے ذمہ دار کون ہے؟ کیا مرکزی حکومت اور اس کی خوش آمدی اور ووٹ بینک کی سیاست اس کے لئے ذمہ دار نہیں ہے؟ جب تک مرکزی حکومت یہ کہے کہ دیش کے وسائل پر طبق�ۂ خاص کا پہلا حق ہے ان کو بڑھاوا دینے کے لئے مختلف اسکیمیں چلائی جائیں، ان کی پڑھائی کے لئے خاص سہولیات دی جائیں تو دیش کے باقی طبقے کیا سمجھیں گے؟ مسئلہ تو یہ ہے کہ مرکزی سرکار دوہرے پیمانے اپناتی ہے۔ اگر کانگریس حکمراں ریاستوں میں مثال کے طور پر آسام میں ہندو مسلم فساد ہو تو وزیر اعلی ترون گگوئی اس کے لئے نہ تو ذمہ دار مانے جاتے ہیں اور نہ ان سے کوئی سوال جواب ہوتا ہے۔ اگر راجستھان کے بھرت پور میں ایک مذہبی عبادتگاہ میں گھس پر طبق�ۂ خاص کے لوگوں کو مار دیتے ہیں تو وزیر اعظم وہاں کے کانگریسی وزیراعلی سے کوئی سوال جواب نہیں کرتے لیکن 2002ء کے گجرات فسادات پر آج بھی نریندرمودی کو لپیٹنے سے باز نہیں آتے۔ گجرات فساد کو تو 11 سال گزر چکے ہیں لیکن وزیر اعظم صاحب نے حال ہی میں ہوئے مظفر نگر فسادات پر کونسا سپا سرکار یا وزیر اعلی اکھلیش یادو سے سوال جواب کئے ہیں؟ اترپردیش میں جب سے اکھلیش یادو کی سرکار آئی ہے تب سے اب تک 105 فرقہ وارانہ فسادات اور 35 خونی جھگڑے ہوچکے ہیں۔ اب تک یوپی کی تاریخ میں تین بار فوج بلائی گئی ہے اور تینوں بار سپا ہی کی حکومت تھی لیکن وزیر اعظم نے کبھی بھی اپنا منہ نہیں کھولا۔شاید اس لئے کیونکہ انہیں پارلیمنٹ میں بل پاس کروانے ہیں۔کراس ووٹنگ کی صورت میں سماجودا ی پارٹی کے ووٹ چاہئے تھے۔ قومی ایکتا پریشد کی میٹنگ محض رسم ادائیگی بن کر رہ گئی۔ اس میٹنگ میں سوائے ایک دوسرے پر الزام تراشی کے اور کچھ حاصل نہیں ہوا۔ ایسی میٹنگیں تب تک بے نتیجہ رہیں گی جب تک بڑی اپوزیشن پارٹیاں سیکولرزم کی منمانی تشریح کرتی رہیں گی۔ مسئلہ یہ ہے کہ سیکولرزم کی منمانی تشریح ہی نہیں کی جارہی ہے بلکہ اس کی بنیاد پر پالیسیاں بھی بنائی جارہی ہیں۔وزیراعظم نے بھاجپا وزرائے اعلی کو تو نصیحت کر ڈالی لیکن اترپردیش کی اکھلیش سرکار کو کچھ نہیں کہا؟ مظفر نگر میں پہلے سیاست ہوئی اور پھر اسے عملی جامہ پہنانے کیلئے فرقہ وارانہ فساد بھڑکائے گئے۔ آج تمام مسلمان نہ تو کانگریس کی حمایت کررہے ہیں اور نہ ہی سماجوادی پارٹی کی۔ کیونکہ وہ مان کر چل رہے ہیں سپا سرکار نے مرکز کی سرپرستی میں فساد کروایا اور پھر مسلمانوں کو حفاظت دینے میں ناکام رہی۔ سنئے دیش میں بڑی مسلم تنظیم جمعیت العلمائے ہند کے سکریٹری جنرل مولانا محمود مدنی کیا فرماتے ہیں؟ مولانا مدنی نے مظفر نگر اور آس پاس کے علاقوں میں پچھلے دنوں بھڑکے فرقہ وارانہ فسادات کو 2002ء کے گجرات دنگوں سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ اترپردیش میں عام جنتا اکھلیش یادو سرکار سے ناراض ہے اور اس نے آنے والے لوک سبھا چناؤ نتیجوں پر اس کا اثر دیکھنے کو ملے گا۔جس طرح سے مظفر نگر میں فسادات کو انجام دیا گیا ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ اس میں اور گجرات کے فسادات میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ سبھی کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ الزام تراشی اور ایک طرفہ سیکولرزم کے فریم میں فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کا جو کام ہورہا ہے اس سے اگر سیکولرزم کے بہانے کسی ایک طبقے کی خوش آمدی ہوگی تو دوسرے طبقے کا دور چلے جانا فطری ہے۔ اگر اقلیتوں کی خوش آمدی اور ووٹ بینک کارڈ کھیلا جائے گا تو پھر کوئی نہ کوئی اکثریتی طبقے کی خوش آمدی کے لئے آگے آئے گا۔ ضروری ہے سب سے پہلے سیکولرزم کی ایک سب کو قابل قبول تشریح ہونی چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟