15 ہزار کروڑخرچ والی اسکیم ’’آدھار کارڈ ‘‘پر سوالیہ نشان؟
آدھار کارڈ سرکاری فائدہ اسکیم کا فائدہ پہنچانے کے لئے ضروری نہیں ہے۔ بصد احترام سپریم کورٹ نے پیر کو یہ حکم دیا۔ اس سے سرکار کو سبھی لوگوں کو آدھار نمبر دینے کی اسکیم کو زبردست جھٹکا لگا ہے۔ جسٹس جی ۔ایس۔ چوہان اے ایس بوپ ڈے کی ڈویژن بنچ نے حکومت سے یہ بھی کہا کہ اس بات کا خیال رکھا جائے کے کسی ناجائز شہری کو نہ ملے۔بنچ کرناٹک ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس ایس۔ کے بدھا سوامی کی مفاد عامہ کی عرضی پر غور کررہی ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کو خاص پہچان نمبر یو آئی ڈی دینے کی آدھار اسکیم غیر آئینی ہے کیونکہ اس کے بارے میں اب تک کوئی قانون نہیں بنا۔ عرضی کے مطابق سرکار بھلے ہی یہ کہہ رہی ہو کہ آدھار کارڈ بنوانا آپ کی خواہش پر ہے چاہے تو اسے بنوائیں نہ بنوائیں مگر جس طرح سے اسے اسکیموں کا فائدہ لینے کے لئے ضروری بتایا جارہا ہے اس سے آدھار کا دعوی جھوٹا ثابت ہورہا ہے۔ لوگ کئی کئی گھنٹے لائن میں لگ کر آدھار نمبر حاصل کررہے ہیں۔ لوگوں کو یہ ڈر ہے کہ کہیں یہ نمبر نہ ہونے کے سبب انہیں اسکیم سے محروم نہ کردیا جائے؟ دیش میں ناجائز طور سے گھسے لوگوں کو بھی پہچان نمبر دیا جارہا ہے۔ قومی سکیورٹی کے لئے یہ سنگین خطرہ ہے۔ عرضی گزار نے کہا کہ آدھار نمبر لینے والوں سے ان کی شخصی معلومات مانگی جارہی ہیں۔ ان میں انگلیوں کے نشانے اور آنکھ کی پتلی کے بایومیٹرک پرنٹ لئے جارہے ہیں۔ ایسے پرنٹ لینا پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی ہے۔ ان پرنٹ کا بیجا استعمال نہیں ہوگا یا یہ سرکار کے پاس محفوظ رہیں گے اس بارے میں کوئی سسٹم سزا یا قانون نہیں ہے۔ جلد بازی میں سرکاری آرڈیننس سے آدھار لاگو کرنے کا مقصد سیاسی فائدہ اٹھانا ہے۔سپریم کورٹ کے حکم سے لوگوں میں الجھن کی پوزیشن بن گئی ہے۔ آدھار اسکیم کولیکر پہلے دن سے ہی سوال اٹھتے رہے ہیں۔
کئی سطح پر افسروں نے کہا تھا کہ ضرورتمندوں کو دئے جانے والی ادائیگی یا سہولت کو آدھا کارڈ کے ساتھ نہیں جوڑا جانا چاہئے۔ اس طرح کی تجاویز کی وجہ سے سرکار نے ڈائریکٹر بینیفٹ اسکیم یا کسی اور معاملے میں آدھار کارڈ کو ضروری نہیں کیا لیکن بغیر اس کے فائدہ حاصل کرنے والوں کے بینک آکاؤنٹ سے لیکر رسوئی گیس اور دوسرے کنکشن لینے تک کو آدھار کے ساتھ جوڑدیا گیا۔ لہٰذا جہاں ڈی بی ٹی اسکیم کا فائدہ ملنے لگا ہے وہاں غذائی گارنٹی کے تحت 2-3 روپے کلو میں اناج دیا جانا ہے وہاں سبھی جگہ ابھی تک آدھار کارڈ کو ہی بنیاد مانا گیا ہے۔ جو بات اب سپریم کورٹ نے کہی وہی بات لوک سبھا کی اسٹینڈنگ کمیٹی پچھلے تین سال سے مسلسل کہہ رہی تھی کے بغیر قانون کے آدھار کارڈ بنوانا غیر قانونی ہے لیکن سرکار نے اس کی ایک نہ سنی۔قومی آبادی رجسٹر میں نام لکھانا قومی شناختی کارڈ بنانا، ضروری تھا لیکن سرکار نے این پی آر کو کم اور نندن نلوک منی کی سربراہی والی یو آئی ڈی اے آئی کو زیادہ توجہ دی۔ اب تک دیش بھر میں 43 کروڑ آدھار کارڈ بن چکے ہیں جس پر قریب 15 ہزار کروڑ روپے خرچ ہوچکے ہیں جبکہ این پی آر بھی یہ ہی کام کررہی ہے۔ این پی آر بنانا قانونی طور پر ضروری ہے۔لیکن وزیر اعلی منموہن سنگھ اس کو لیکر اس اتھارٹی کے چیئرمین کوکیبنٹ کا درجہ دیا ہوا ہے۔ اس لئے مرکزی سرکار قانونی طور سے ضروری سسٹم کو توجہ دینے کے بجائے یوآئی ڈی اے آئی کے لئے تھلے کا منہ کھولتی چلی گئی۔ مرکزی سرکار کی ڈی بی ٹی اسکیم ؔ آدھار کارڈ سے ہی چل رہی ہے۔ پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی نے تین بار (42 ویں ،53 ویں ،65ویں) رپورٹ میں خاص پہچان اتھارٹی بل 2010ء کو واپس لینے اور آدھار کارڈ بنانے کے فیصلے پر دوبارہ غور کرنے کی سفارش کی لیکن سرکار نے اس پر توجہ نہیں دی۔ وزارت داخلہ نے آدھار کارڈ اسکیم پر اعتراض کیا تھا اس کا کہنا تھا جو کام این پی آر کررہا ہے وہی کام آدھار بھی کررہا ہے۔ یعنی سرکار کی دو ایجنسی ایک ہی کام کررہی ہیں جس سے اب تک15 ہزار کروڑ روپے خرچ ہوچکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اب آگے کا کیا قدم ہوگا؟ کیا آدھار کارڈ کی ضرورت نہیں ہے؟ مرکزی سرکار کو اس بات کا بھی جواب دینا ہوگا کہ بغیر ہوم ورک کئے وزیر اعظم نے دیش کا اتنا پیسہ کیوں لگوادیا؟ جنتا میں کنفیوزن ہے مرکزی سرکار پوزیشن صاف کرے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں