انا ہزارے کا اب سونیا اور کانگریس لیڈر شپ پر وار

Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily

31مئی 2011 کو شائع
انل نریندر
 پچھلے کچھ دنوں سے کانگریس لیڈر شپ پر بھی حملے ہونے لگے ہیں۔ حالانکہ یہ نام لیکر تو نہیں کئے جارہے لیکن اشارے کس کی طرف ہیں ، یہ صاف ہے۔ پہلے تو بات کرتے ہیں انا ہزارے کے تازہ سنسنی خیز حملے کی۔ انہوں نے سنیچروار کو کانگریس صدر سونیا گاندھی پر درپردہ طور سے حملہ کرتے ہوئے کہا ریموٹ کنٹرول کی وجہ سے ’’مسائل‘‘ پیدا ہورہے ہیں۔ انا ہزارے نے حالانکہ وزیر اعظم منموہن سنگھ کی تعریف کرتے ہوئے انہیں ایک اچھا انسان قراردیا۔ ہزارے ایک ریلی کو خطاب کررہے تھے۔ انہوں نے کانگریس صدر کا نام لئے بغیر لیکن واضح اشارہ کرتے ہوئے کہا ،پردھان منتری اچھے انسان ہیں لیکن برے نہیں اور مسائل ریموٹ کنٹرول کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب ہم سبھی کو یقین ہوگیا ہے ہر سرکار میں عوامی طاقت سب سے مضبوط ہوتی ہے۔ اگر لوکپال بل 16 اگست تک نہیں لایا گیا تو وہ جنترمنتر پر لوٹ کر پھر مرن برت شروع کردیں گے۔
کانگریس صدر سونیا گاندھی جو ریموٹ کنٹرول کے ذریعے دیش پر حکومت کررہی ہیں،بلا تنازعہ کانگریس کی سپریم لیڈر اور دیش کی سب سے طاقتور خاتون ہیں۔ پہلے پارٹی کے اندر اور باہر موقعہ پرست لوگوں سے گھرے رہنے کی کانا پھوسی ہوتی رہتی ہے لیکن اب کانگریس کے تین سینئر لیڈروں آر کے دھون، وسنت ساٹھے، جعفر شریف کے حالیہ بیانات سے درپردہ طور سے راہل گاندھی کے طریقہ کار پر حملہ بول دیا ہے۔ وہ سونیا کی بیٹی پرینکا جن کی شخصیت کرشمائی ہے، کو راہل گاندھی کے بدلے سرگرم سیاست میں لانے کی اپیل کررہے ہیں۔ ان تینوں کے بیانات میں صاف نظر آرہا ہے کہ باتوں کے علاوہ اور بھی کچھ ہوسکتا ہے۔ ان تینوں سرکردہ لیڈروں کے ذریعے سونیا گاندھی کے کانگریس تنظیم چلانے کی پالیسی کے خلاف ایک طرح سے ناراضگی کی علامت ہے۔ یہ کانگریس پارٹی کے اندر نئے چیلنج کی شروعات دکھائی دے رہی ہے جو آنے والے وقت میں ایک سنگین شکل اختیار کر سکتی ہے۔ آندھرا پردیش میں جگن ریڈی جیت کے بعد سونیا اور راہل کو کھلی چنوتی دے رہے ہیں۔ یہ تینوں لیڈر انتہائی تجربہ کار لیڈر ہیں اور جنہیں کسی دوسرے شخص کی بہ نسبت زیادہ سیاسی طور پر ماہر مانا جاتا ہے کیونکہ ان تینوں نے ان دنوں میں اندرا گاندھی کا ساتھ دیا جب وہ اپنی زندگی کے سب سے مشکل دور سے گذر رہی تھیں۔ ان لیڈروں کے طرز فکر اور کچھ دیگر سینئر پارٹی لیڈروں جو خود کے استعمال ہونے اور پھر اس کے بعد تنہا محسوس کررہے تھے، کے ساتھ غور و خوض کے بعد یہ بیان دیا ہے۔ اس لئے ان تینوں کے بیانوں کو پارٹی کے اندر بہت سنجیدگی سے نہیں لیا جاسکتا۔
آر کے دھون یقینی طور سے اندرا گاندھی کے سب سے بڑے قریبی تھے اور راہل کو ہوشیار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اپنے والد راجیو گاندھی کی طرح غلطی کونہ دوہرائیں۔ سیاست میں پاؤں پھونک پھونک کر رکھیں۔ راہل کو سمجھنا ہوگا کہ کون ان کا اپنا ہے، کون ان کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلا رہا ہے اور اپنی ذاتی سیاست چمکا رہا ہے۔ اپنے والد کی طرح انہیں اپنے رشتہ داروں اور قریبیوں کو ترجیح نہیں دینی چاہئے۔ دھون کے مطابق راجیو کے قریبیوں کو ان کی اچھائیوں اور خامیوں کا بھی پتہ رہتا تھا اس لئے انہوں نے اپنی توقع کو پوری کرنے کے لئے خواہشوں کو مارا ہے۔ دھون نے ارون نہرو، ستیش شرما جیسے لیڈروں کا نام لیا ہے جو کچھ اہم لوگوں کیلئے ایک سبق ہے۔ بیشک سونیا جتنی کوشش کریں راہل شاید ہی اگلے وزیر اعظم کے طور پر فٹ بیٹھیں؟
Tags:

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!