غریب کو ہی مار دو، غریبی اپنے آپ ختم ہوجائے گی

Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
2جون 2011 کو شائع
انل نریندر
ہمیں لگتا ہے کہ یوپی اے کی منموہن سنگھ سرکار نے یہ پالیسی بنائی ہے کہ غریب کو ہی مار دو،غریبی اپنے آپ ہی دور ہوجائے گی۔اگر ایسا نہ ہوتا تو کمر توڑ مہنگائی پر کچھ تو قابو پانے کی کوشش یہ سرکار کرتی؟ الٹا اب پھر پیٹرول و ڈیزل کے دام اور مٹی کے تیل کے دام بڑھانے کی تیاری چل رہی ہے۔ یہ حال تب ہے جب عالمی بازار میں کچے تیل کی قیمت فی بیرل گھٹی ہے۔ وزیر پیٹرول جے پال ریڈی نے منگلوار کو دہرہ دون میں کہا کہ غیر ملکی خام تیل کے مقابلے گھریلو بازار میں پیٹرول کی قیمتیں ابھی بھی کم ہیں اور تیل بیچنے والی کمپنیوں کو ابھی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے اور یہ فی لیٹر 4 روپے سے اوپر کا بتا رہے ہیں۔ جے پال ریڈی اسی دن انڈین آئل کمپنی کے چیئرمین آر ایس بوٹالا نے پریس کانفرنس کی اور بتایا کہ کم قیمت پر پروڈکس بیچنے کی وجہ سے کمپنی کا حقیقی منافع 2009-10 کی بہ نسبت گھٹا ہے۔ کمپنی کو 2009-10 میں 10221 کروڑ روپے کا منافع ہوا تھا جو گھٹ کر اختتام پذیر مالی سال کی آخری سہ ماہی میں 3905 کروڑ16 لاکھ روپے رہا۔ یعنی یہ حقیقی منافع کی بات کرہرے ہیں جبکہ وزیر موصوف کمپنی میں گھاٹے کی بات کررہے ہیں۔ بین الاقوامی منڈی میں دیگر کرنسیوں کی بہ نسبت ڈالر کی قیمت مضبوطی کی وجہ سے خام تیل کے دام99 ڈالر فی بیرل آگئے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ پچھلے ماہ کے آغاز میں خام تیل کی قیمتیں 34 ماہ میں سب سے اونچے پائیدان 115 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی تھیں۔ قارئین کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ پاکستان میں اس وقت پیٹرول کے دام صرف17 روپے فی لیٹر ہیں جبکہ انڈونیشیا جیسے ملکوں میں پیٹرول کی قیمت اس سے بھی کم ہے۔
ان تیل کمپنیوں نے دیش کے غریب درمیانے طبقے اور ملازمین طبقے کی ناک میں دم کررکھا ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان بڑی بڑی تیل کمپنیوں کی مالی جانچ کرائی جائے؟ آخر ان کے خرچوں کا حساب کیا ہے؟ان کی عیاشی کی وجہ سے جنتا کیوں پس رہی ہے؟ دراصل یہ نورتن کمپنیاں ہی دیش کو لوٹ رہی ہیں۔ آج تک سرکار نے یہ کبھی نہیں بتایا کہ پرائیویٹ فیکٹر میں پیٹرول ، ڈیزل کی کتنی کھپت ہوتی ہے۔ ہمارا اندازہ ہے تیل کی کھلی کھپت میں سرکاری و ان نو رتن کمپنیاں ریلوے ، ایئر لائنس ان میں 70 سے80 فیصدتیل کی کھپت ہوتی ہے۔ حکومت اپنے کوٹے میں 10 فیصد کمی کیوں نہیں کرتی۔ بار بار قیمتیں بڑھا کر مہنگائی بڑھانے سے باز آئے۔ جنتا کو یہ بھی سرکاری طور سے بتایا جائیکہ آج کل بک رہے پیٹرول دہلی میں 63.37 پیسے فی لیٹر ہے اس میں سرکاری ٹیکس کتنے ہیں؟ سرکار کی لاگت کیا آتی ہے جسے وہ 62 روپے پر فروخت کرتی ہے؟
ماہر اقتصادیات ڈاکٹر منموہن سنگھ سے دیش کو بہت امیدیں تھیں لیکن انہوں نے سب پر پانی پھیر دیا ہے۔ وزیر اعظم سے تو زیادہ حساس ہمارا سپریم کورٹ ہے جس نے حال ہی میں ایک فیصلے میں کہا کہ فری مارکیٹ مسائل کا حل نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے جدید معیشت کی پالیسیوں اور اصلاحات اور نجی کرن اور عالمی کرن کی زبردست تنقید کرتے ہوئے کہا کہ فری مارکیٹ کی فارن سسٹم پر دوبارہ نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ جسٹس سدرشن ریڈی اور جسٹس ایس این نجر کی ڈویژن بنچ نے صاف کہا سرکار فری مارکیٹ کے نام پر اپنی اس آئینی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتی جس کے تحت اس نے عوامی بہبود کے لئے کام کرنا ضروری ہے۔ بغیر ریگولیٹری والہ مستثنیٰ سسٹم میں بازار وسیع طور پر ناکامی کی طرف بڑھ جائیں گے۔
Tags: Anil Narendra, Daily Pratap, India, Manmohan Singh, Petrol Price, Poor, Poverty, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟