ہٹلر کی طرح چین بھی کئی مورچے کھولنے میں لگا ہے !
بھارت چین کے درمیان لائن آف ایکچول کنٹرول (ایل اے سی )پر پانچ مئی سے جاری تعطل بنا ہوا ہے ۔حالانکہ اب تک بھارت چین کمانڈر سطح کی تین دور کی بات چیت ختم ہو چکی ہے ۔اس میں مشرقی لداخ میں مختلف مقامات پر چین کے قبضے کے ہٹنے کے طور طریقے پر بات چیت ہوئی تھی اسی دور کے مذاکرات میں ٹکراو¿ والے مقامات سے فوج ہٹانے کے مسئلے پر کچھ شرطیں رکھی گئی تھیں ۔بھارت سے کمانڈر لفننٹ جنرل ہرمندر سنگھ جبکہ چین کی طرف سے تبت ملیٹری میجر جنرل لیولن شامل ہوئے بات چیت میں اتفاق رائے بنانے کے بعد بھی پنگونگ سے پیچھے نہیں ہٹا ۔یہ ہی نہیں کئی مقامات پر اس نے فوجیں اور آگے بڑھا دی اور پکی تعمیرات میں لگا ہوا ہے ۔سیٹر لائٹ سے لی گئی تصویروں نے چین کی پول کھول دی ہے ۔تصویروں میں یہ بات صاف ہوتی ہے کہ چھ جون کو ہوئے اتفاق رائے ہونے کے بعد بھی وہ ایل او سی پر تعمیراتی کام کراتا رہا ہے ۔سیکولائٹ کمپنی نیکسر ٹیکنالوجی کے ذریعے جاری تصویروں سے صاف ہے کہ چین کے ذریعے گلوان وادی کے قریب اس علاقے میں مسلسل تعمیرات جاری ہیں ۔جس پر بھارت کا دعویٰ ہے ۔اس درمیان دونوں ملکوں میں ماضی کی پوزیشن میں لوٹنے پر اتفاق رائے ہوا تھا ۔لیکن اس کے باوجود گلوان وادی میں چین کے ذریعے تعمیراتی کام چلتا رہا ۔امریکہ کے وزیرخارجہ مائک پومپیو کا کہنا ہے کہ یوروپ سے فوجی ہٹا کر ایشیا میں خاص کر بھارت کے حق میں چین پر لگام لگانے کیلئے تعینات کی جا سکتی ہیں۔اچھی خبر ہے ساو¿تھ چائنا سمندر میں پہلے ہی امریکی بیڑے تعینات ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ روس اس معاملے میں کیا رول رکھتا ہے خاص کر جب بھارت کے زیادہ تر ہتھیار روسی ہیں ۔چین کی بڑھنے والی پالیسی میں ان دوستوں کو بھی نہیں چھوڑا جنہوں نے امریکہ بھارت کا پرانا ساتھ چھوڑ کر چین کا دامن تھاما تھا جسیے فلیپن ،نیپال ،ملیشیا ،لیتنام ،انڈونیشیا ،طائبان پہلے سے ہی اس کے شکار ہیں ۔چینی لیڈر شپ یہ بھی نہیں سمجھ پارہی ہے کہ ایک ساتھ کئی مورچے کھولنا عالمی جنگ کا آغاز کر سکتا ہے وہ تب جب دنیا کورونا سے لڑ رہی ہے ۔بحرحال اس کے دباو¿ میں یہ شخص گروپ و ملک غلط فیصلے لے رہے ہیں اس وبا کے چھ مہینے بعد بھی دوا نہیں بن پائی اس سے لڑنے کے بجائے سرحد پر کشیدگی پیدا کرنا وہ بھی آدھے درجن ملکوں کے ساتھ بھی اس کی دہشت کی مثال ہے ۔کچھ ایسا ہی ہٹلر نے دوسری جنگ عظیم مین کئی مورچے کھول دئیے تھے ۔دیکھنا ہوگا ساڑھے تین سو سال کی انسانی وجود کی تاریخ سے آج کے انسان میں کیسا سبق لیا ؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں