بیٹوں کو عالمی سطح کا بنانے میں والدین کا تعاون !

آج اگر ٹیم انڈیا ورلڈ کپ جیتنے کی امید کررہی ہے توا س کے کھلاڑیوں کو یہاں تک پہنچانے میں ان کے والد کا بہت بڑاتعاون ہے پیش ہے کچھ کھلاڑیوں کے والد کی قربانی او رجدوجہد کی داستان ٹیم انڈیا کے کپتان وراٹ کوہلی اپنے والد کے بیحد لاڈلے تھے 9سال کی عمر میں جب وراٹ کوہلی نے کرکٹ کھیلنا شروع کیا تو والد ہی انکے پہلے فین تھے جو اپنی مصروف زندگی سے وقت نکال کر انکی حوصلہ افزائی کے لئے جاتے تھے وراٹ کے والد پریم کوہلی پیشہ سے فوجداری معاملوں کے وکیل تھے گروگرام میں وراٹ فیز ون میں والدہ سروج کوہلی کے ساتھ رہتے تھے ان کا ایک اور بھائی اور بہن ہے ان کے والد کا خواب تھا کہ انکا بیٹا وراٹ کرکٹ میں اچھا کھیلے اور نام کمائے ۔کرکٹ کی کوچنگ سے لیکر اور وراٹ کے کھیل سے جڑے رہے اور ان کے کھیل پروگراموں کے بارے میں پوری معلومات رکھتے تھے اتناہی نہیں بیٹے وراٹ کو کرکٹ کوچنگ کے لئے ساتھ لیکر جاتے اور آتے تھے وراٹ کو ایک کامیاب کرکٹر بنانے کا خواب دیکھنے والے والد پریم کوہلی کا 18دسمبر 2006میں دہانت ہوگیا تھا اس وقت وراٹ رنجی ٹرافی میچ کھیلا کرتے تھے وراٹ کوہلی نے ایک انٹر ویو میں بتایا کہ ان کا والد سے بہت لگاو ¿ تھا ان کے والد جب انہیں چھوڑ گئے توان کا کاروبار ٹھیک نہیں چل رہاتھا اور پوری خاندان کرائے کے مکان میں رہتا تھا اور خاندا ن کے لئے مشکل وقت تھا ۔ٹیم انڈیا کے سب سے کامیاب کپتانوں میں سے ایک ہے مہندر سنگھ دھونی وہ بھی اس وقت اونچے مقام پر ہیں ان کی ترقی کے پیچھے بھی والد کی ہی قربانی ہے ماہی کو دھونی بنانے میں انکے والد نے ہرقدم پر ساتھ نبھایا ایک کمپنی میں نوکری کرتے تھے اور بیٹے کو کرکٹ کھلاڑی بنانے کیلئے اپنی ضرورتوں میں کمی کرکے بیٹے کی ضرورت کو پورا کرنے میں کمی نہیں ہونے دی ان کو بھروسہ تھا کہ انکا بیٹا ایک دن کرکٹ میں اونچا مقام بنے گا ۔مہندر سنگھ دھونی پر ایک فلم بھی بنی ہے جس میں ان کی زندگی میں جدوجہد کی پوری کہانی کو دکھایا گیا ہے یوں تو ہر ماں باپ کا تعاون اپنے بیٹے کو لائق بنانے میں ہوتاہے لیکن کچھ کہانیاں تاری ´خ کے اوراق میں ےادگار ہوجاتی ہے ایسے ہی ایک والد توصیف احمد تھے جنہوں نے اپنے بیٹے محمد سمیع کو ورلڈ کرکٹر بنانے میں خود کو بھی وقف کردیا توصیف احمد حالانکہ اب دنیا میں نہیں ہے لیکن بیٹے سمیع کے ساتھ ان کے والد کی دعاو ¿ں ہمیشہ رہیں گی ۔امروہہ کے علی نگر سہسپور گاو ¿ں کے ایک معمولی کسان توصیف احمد نے اپنی ز ندگی مشقت میں گزاری کرکٹ کے شوقین توصیف احمد نے سمیع کو بڑا کرکٹر بنانے کی ٹھانی اور ان کو خود کرکٹ سکھانے میں لگ گئے کھیت پر میڈیم پچ بنادی سمیع وہیں پریکٹس کرنے لگے دوسال بعد 2004-2005میں سمیع کو مرادآباد کوچ فخرالدین کے پاس بھیجدیا جہاں انکی ٹریننگ ہوئی باپ اپنے بچے کےلئے کیا کچھ نہیں کرتا آخر کار بچوں کی ذمہ داری اٹھا نا او رانکا کامیاب بنانے کی ذمہ داری والد کے ہاتھوں میں ہی ہوتی ہے یہ کہنا ہے بھونیشور کے ایک اور والد کرن پال سنگھ کا جو اترپردیش پولیس میں سپاہی رہے اور بچوں کو ان کی منزل دلانے میں کافی جدوجہد کی ٹیم انڈیا کے گیند باز یوراج سنگھ کی گیندبازی کا دنیا بھر میں ڈنکا بجتا ہے کرن پال سنگھ کا کہنا ہے کہ انہوں نے بچوں کو تہذیب سے رہنا سکھایا ہے ۔روہت شرماکے والد گروناتھ شرما نے بیٹے کی خوشی کے لئے اس کے دور کیا لیکن اس کا کرکٹ نہیں چھوٹنے دیا حالانکہ ہمارے مالی حالات تنگی کے تھے ہم ممبئی کے ڈولی وبلی میں رہتے تھے روہت کو کم عمری سے ہی کرکٹ کا شوق تھا انہیں ہاتھ پکڑ کر نیچے لے جاتا اور بالنگ کراتا ۔میں انڈر آرم بالنگ کرتا تھا روہت کیلئے کرکٹ کا سازوسامان خرید نے کے لئے ہمارے پاس پیسہ نہیں ہوا کرتے تھے پھر میں نے اسے دادا کے پاس رہنے بھیج دیا حالانکہ انہیں اپنے سے دور کرنے کا دکھ تھا لیکن میرے لئے اسکاکیریئر بالا تر تھا اس کا کھیل دیکھ کر کوچ دنیش لاڈ نے اسے سوامی دیوے آنند اسکو ل سے کھیلنے کو کہا اور وہاں سے وظیفہ بھی دلوایا والد کا کہنا ہے کہ بچوں کو ان کے شوق کے حساب آگے بڑھنے دینا چاہئے جو وہ چاہتے ہیں۔ ایسے ہی ایک اور کھلاڑی رویندر جڈیجہ کے والد انیرودھ سنگھ نے بیٹے سے کہا کہ تمہیں دنیا کو جو دکھانا ہے وہ کرکٹ کے میدان پردکھاو ¿ جام نگر میں گھر کے پاس واقع پولیس لائن میں جہاں رویندجڈیجہ بچوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے میدان میں جاتا تھا ایک دن میں اسے لال بنگلہ میں واقع کرکٹ کوچنگ سینٹر لے گیا جہاں کوچ مہندر سنگھ نے اسے پرکھا اور اسے تربیت دی حالانکہ میری خواہش تھی کہ وہ فوج میں جائےں اس لئے میں فوجی اسکول میں داخلہ کرانا چاہتے تھے لیکن وہ کرکٹ میں پوری طرح رچ بس چکا تھا رویندر جڈیجہ دھارمک نظریہ کے ہیں ۔ایک اور کھلاڑی یجوندر چہل کے والد کے کے چہل بتاتے ہیں کہ یجویندر چہل چار پانچ سال کا رہا ہوگا تب میں نے خواب دیکھا تھا کہ وہ چیز میں گرینڈ ماسٹر بناو ¿ں گا اور اسے سکھانا بھی شروع کردیا ۔لیکن اس نے اپنے والد کے سامنے شرط رکھ دی کہ وہ چیز تبھی کھیلے گا جب اسے کرکٹ کھیلنے دیں گے اور دونوں کھیل ساتھ ساتھ چلتے رہے اور وہ چیز میں نیشنل چیمپیئن بھی بنا لیکن وہ مسلسل کرکٹر میں اپنا مستقبل تلاشتا رہا تو میں نے اسے اسپینر بننے کی صلاح دی حالانکہ وہ میڈیم پیسر بننا چاہتا تھا میں نے گھر سے تھوڑی دور کھیت میں پچ تیار کروادی اور صبح وشام ساتھ جاکر لیگ اسپینر کی پریکٹس کروانے لگا اور اس کی پر فارمینس بہتر ہوتی گئی آج وہ نام کمارہا ہے خوشی تویہ ہے اس کا نام نامی گرامی ٹیم انڈیا کے کرکٹروں کے کیریئر بنانے میں کوچوں کے ساتھ ساتھ سب سے بڑاتعاون ماں باپ کا بھی ہے آج وہ سب اپنی قربانی پر پھولے نہیں سمارہے ہونگے ۔بیٹوں نے دنیا بھر میں اپنا ڈنگا بجا یا ہوا ہے ۔
(انل نریندر )

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!