کمائی میں امیرپر کاہلی سے صحت میں غریب

کاہلی انسان کے جسم میں رہنے والی سب سے بڑی دشمن ہے۔یہ دشمن اب ہمارے لئے جان لیوا ثابت ہو رہا ہے ۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او)کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی 130کروڑ آباد ی میں قریب 34فیصدی یعنی 42کروڑ لوگ کاہلی کی زد میں آکر بیمار ہو رہے ہیں ۔اس کی سب سے بڑی وجہ جسمانی طور پر درکار محنت نہ کرنا بتایا گیا ہے ۔دا سالٹ سیٹ میگزین میں شائع رپورٹ میں ہندوستانی خواتین میں جسمانی محنت نہ کرنے کا مسئلہ مردوں کے مقابلے دوگنہ ہے ۔رپورٹ کے مطابق دیش کی قریب آدھی خواتین 47.7درکار کثرت نہیں کرتیں جبکہ 20فیصد سے زیادہ مرد بھی کاہلی کے شکار ہیں168 ملکوں میں کرائے گئے 358سروے کے دوران 19لاکھ سے زیادہ لوگوں کو اس روپورٹ میں شامل کیا گیا ہے سال2001سے 2016کے اعداد و شمار کی بنیاد پر تیار کی گئی اس رپورٹ کے مطابق دنیا کی 27.5فیصدی آبادی کاہلی کا شکار ہے دنیا کے کئی ایسے ملک ہیں جو پیسوں کے معاملوں میں تو امیر ہیں لیکن صحت کی بات کریں تو وہ اتنے ہی غریب ہیں ۔ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ سے یہ حقائق سامنے آئے ہیں کہ خوشحالی میں آگے دیش جسمانی محنت کرنے میں پیچھے چھوٹتا جا رہا ہے ۔انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی رینکنگ میں 90ویں مقام پر موجو کوئت کی حالت یہ ہے کہ یہاں کی 67فیصدی آبادی جسمانی محنت پر توجہ نہیں دیتی اسی طرح سعودی عرب کو بھی 50فیصدی آبادی سے زیادہ آرام طلب معنی جاتا ہے امیر ممالک میں فہرست میں چوتھے مقام پر سنگاپور کا بھی یہی حال ہے جتنی زیادہ کمائی اتنی زیادہ کاہلی ۔اس سے بیماری بڑھتی جا رہی ہے۔ اور سب سے زیادہ مار شگر کی ہے ۔اس وقت ایک اندازے کے مطابق 42.2کروڑ لوگ دنیا میں شوگر کی بیماری کی زد میں ہیں 2030تک موت کے لئے باقی 7اسباب شامل ہوں گے شوگر 2017میں بھارت میں 7.2کروڑ لوگ شوگر کی بیماری سے متاثر تھے تین میں سے ایک ہندوستانی بلیڈ پریشر کی بیماری سے متاثر ہے 11.44فیصد پستان کینسر کے معاملے بڑھے 2008سے 2012کے درمیان ہیلتھ پر بھارت اپنے جی ڈی پی کا محض 1.25فیصد ہی رقم خرچ کرتا ہے جبکہ بغل میں تقریبا تباہی کے دہانے پر پہنچا افغانستان اس مد میں 8.2فیصدی رقم خرچ کرتا ہے لیکن اس معاملے میں سیدھے حکومت کو کوئی بھی قصور وار نہیں دے سکتے کیونکہ اپنے صحت کا خیال رکھنا اپنے جسم کو کام کرنے کے لائق بنائے رکھنا سب سے پہلے انسان کی ذاتی ذمہ دار ی بزرگ یہ ذمہ داری جیسے تیسے کر کے نبھا لیتے ہیں لیکن موبائل فون اور لیپ ٹاپ ہر وقت رہتے باتیں کرنے والے نوجوانوں میں یقینی طور پر کثرت کرنے گھومنے پھرنے کی عادت کم ہوتی جارہی ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟