چھوٹی لڑکی سے دنیا کی سب سے طاقتور خاتون انجیلا مرکل

انجیلا مرکل چوتھی مرتبہ جرمنی کی کمان سنبھالنے کوتیار ہیں۔ برلن کے پاس چھوٹے سے گاؤں میں پلی بڑھی مرکل آج دنیا کی سب سے طاقتور خواتین میں سے ایک ہیں۔ سیاسی کیریئر میں اتھل پتھل کے درمیان ان کا قد بڑھتا ہی گیا۔ کبھی جس خاتون کو چھوٹی لڑکی کہہ کر نظرانداز کیاگیا۔ آج وہی دنیا کی سب سے طاقتور خاتون مانی جاتی ہیں۔ بیشک جرمنی کے عام چناؤ کے نتیجے ایک معنی میں اندازے کے مطابق ہی آئے ہیں، تو ایک حدتک چونکانے والے بھی کہے جاسکتے ہیں۔ جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل کی پارٹی سی ڈی یو (کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی) اور ان کی اتحادی پارٹی سی ایس یو (کرسچن سوشل یونین) کے اتحاد کی جیت یا بڑھت طے مانی جارہی تھی، نتیجہ بھی ویسا ہی آگیا۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ مرکل کی مقبولیت برقرار ہے لیکن غور طلب ہے کہ سی ڈی یو اور سی ایس یو اتحادکو 33 فیصد ہی ووٹ مل پائے جو کہ دہائیوں میں اس کا سب سے کم ووٹ فیصد ہے۔ مرکل کی پارٹی اور ان کی اتحادی جماعت کو 32.8 فیصد ووٹ ملے اور جرمنی کی بڑی پارٹی (اپوزیشن) یعنی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کو محض 20.7 ووٹ ملے ہیں۔ یہ اس لئے اہم ہے کہ دونوں کے ووٹوں کا نقصان ہوا ہے۔ حکمراں اتحاد کو 8.7 فیصد کا نقصان ہوا ہے تو ایس پی ڈی کو بھی 5 فیصد ووٹوں کا نقصان ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ جرمنی کی سیاست میں ان دونوں کیندر کے علاوہ بھی کئی دھرو کھڑے ہورہے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے جرمنی میں جتنے بھی چناؤ ہوئے ان میں سی ڈی یو اور ایس پی ڈی یہی دونوں پارٹیاں چھائی رہیں لیکن تازہ چناؤ نتیجے دیکھیں تو قریب 46 فیصد ووٹروں نے دیگر پارٹیوں کو ووٹ دینا پسند کیا اور یہ بھی قابل غور بات ہے کہ کٹر دکشن پنتھی اے ایف ڈی کو 13 فیصدی ووٹ ملے ہیں اور اسی کے ساتھ وہ جرمنی کی تیسری سب سے بڑی سیاسی طاقت کی شکل میں ابھری ہے۔ مرکل کے اتحاد کو اکثریت نہیں ملی ہے۔ اس مینڈیٹ کی ایک تشریح یہ ہے کہ مرکل کے مخالف گروپ دکشن پنتھی اور جارحانہ پسند راشٹروادیوں نے جو کمپین کی اس کا جنتا کے ایک طبقے پر اثر ہوا ہے ورنہ ووٹوں میں اتنی کمی کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی۔ دراصل مرکل نے شام کے پناہ گزینوں کے تئیں جو مثبت رخ اپنایا اس سے اس کی مخالفت بڑھی ہے۔ اگر ان کی پارٹی چناؤہار جاتی تو اس کی بڑی وجہ یہی مانی جاتی کہ مرکل کے لئے ایک بڑی چنوتی یہ بھی ہوگی کہ اسلام مخالف گروپ دکشن پنتھی پارٹی آلٹرنیٹو فار جرمنی (اے ایف ڈی) پہلی بار پارلیمنٹ میں پہنچ گئی ہے۔ 13 فیصدی ووٹ لیکر اے ایف ڈی تیسری سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔ 2015 میں 10 لاکھ پناہ گزینوں کو جرمنی میں داخلے کی اجازت دینے کے سبب ایف ڈی کے نیتا چانسلر میرکل کو دیش دروہی کہتے رہے ہیں۔ پارٹی نے مرکل کی امگریشن و پناہ گزیں پالیسی کو لیکر ان سے بھی احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ اب آگے اقتدار چلانے کیلئے مرکل اتحاد کو دوسری پارٹیوں سے تال میل کرنا پڑے گا۔ بریگزٹ کے نتیجے اور امریکہ کی کمان ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھ میں آنے سے یوروپی یونین کے تمام لیڈر دقت محسوس کرتے رہے ہیں اس لئے بھی مرکل کو لیکر جرمنی ہی نہیں سارے یوروپ میں ایک امید کا احساس پیدا ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جرمنی کے پارلیمانی انتخابات پر بڑی دلچسپی سے لی جارہی تھی۔ مرکل کو پھر ایک عہد ملنے سے یوروپی یونین نے راحت کی سانس ضرور لی ہوگی لیکن جبکہ یوروپ میں بے یقینی ماحول ہے اس سے جرمنی کمزور ہوگا۔ کیا نتیجہ لائے گا یہ کہنا مشکل ہے۔ یوروپی یونین کو بنائے رکھنے کے لئے مضبوط اور طاقتور ہونا انتہائی ضروری ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ تازہ سیاسی مجبوریوں کے چلتے چانسلر انجیلا مرکل دیش کو کتنی مضبوطی فراہم کر پاتی ہیں؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟