آخر بی ایچ یو طالبات کا قصور کیا تھا

بنارس ہندو یونیورسٹی میں سنیچر کی رات طالبعلم و طالبات پر جو پولیس کا لاٹھی چارج ہوا اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اگر ٹھیک وقت پر اس سے نمٹ لیا جاتا تو یہ حالات نہیں بنتے۔ واردات کی شروعات اس وقت ہوئی جب یونیورسٹی کمپلیکس میں طالبات سے بڑھتے چھیڑ خانی کے واقعات کے خلاف یونیورسٹی کے طلبا جمعرات سے ہی احتجاجی مظاہرے کررہے تھے۔ اس احتجاجی مظاہرے کی شروعات اس وقت ہوئی جب آرٹ فیکلٹی کی ایک طالبہ اپنے ہوسٹل لوٹ رہی تھی۔ موٹر سائیکل پر سوار تین لوگوں نے مبینہ طور پر اس سے چھیڑ چھاڑ کی۔ شکایت کنندہ کے مطابق جب اس نے ان کی کوششوں کی مذاحمت کی تو تینوں لوگوں نے اس کے ساتھ گالی گلوچ شروع کردی اور بھاگ گئے۔ طالبہ نے الزام لگایا کہ موقعہ واردات سے تقریباً 100 میٹر دور موجود سیکورٹی گارڈوں نے ان لوگوں کو روکنے کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔ اس نے اپنے سینئر طلبا ساتھیوں کو اس بارے میں بتانے کی جگہ وارڈن کو واقعہ کی جانکاری دی۔ وارڈن نے اس پر اس سے الٹا پوچھا کہ وہ اتنی دیر سے ہوسٹل کیوں لوٹ رہی تھی۔ وارڈن کے جواب نے طالبہ کے ساتھیوں کو ناراض کردیا۔ وہ جمعرات کو کمپلیکس کے مین گیٹ پر دھرنے پر بیٹھ گئی۔ احتجاجی مظاہرے نے سنیچر کی رات تشدد کی شکل اختیار کرلی۔ رات میں پولیس نے لڑکیوں پر لاٹھی چارج کیا جس میں کچھ طالبات لڑکیوں سمیت کئی طلبہ اور دو صحافی زخمی ہوگئے۔ اس دوران آگ زنی بھی ہوئی۔ یونیورسٹی کمپلیکس میں طالبات کے ساتھ سرے رائے چھیڑ خانی، بھدے اور قابل اعتراض فقرے اور کپڑے اتارنے جیسی گھناؤنی حرکت روزانہ کی بات بن گئی ہے۔طلبا کی مانگ رہی کہ سب حرکتوں پر یونیورسٹی انتظامیہ (پراکٹر) اور وائس چانسلر جی سی ترپاٹھی سے روک لگانے کی مانگ کی تھی جسے ہر کسی نے ان سنا کردیا ۔ نہ تو یونیورسٹی کی سیکورٹی کے لئے معمور سیکورٹی جوانوں نے طالبات کو محفوظ ہونے کا بھروسہ دلایا نہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے معاملہ کو سنجیدگی سے لیا۔ آندولن کررہی طالبات سے ملنا تک مناسب نہیں سمجھا۔ مجبوراً طالبات کو سڑکوں پر اترنا پڑا۔ اگر طالبات کی تکلیف کو منصفانہ نظریئے سے دیکھیں تو ان کی مانگیں بدامنی اور سیاسی اغراض پر مبنی کیسی ہوسکتی ہیں؟ بچیوں کی بس تین چار ہی مانگیں تھیں ہوسٹل میں آنے جانے والا راستہ محفوظ ہو، سیکورٹی افسر کی تعیناتی ہو، چھیڑ چھاڑ کے واقعات کو روکنے کیلئے سنجیدگی سے کوششیں ہوں اور آنے جانے والے راستوں خاص کر ہوسٹل والے راستوں پر سی سی ٹی وی سے نگرانی ہو وغیرہ وغیرہ۔ ان مانگوں میں بدامنی اور قابل اعتراض کیا ہے؟ بجائے اس کے طالبات کی جائز مانگیں ماننے سے الٹا ان پر ہی سیاسی اغراض پر مبنی ہونے کا الزام لگادیا گیا۔ جس یونیورسٹی کوباوقار تاریخ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے وہاں اپنی سیکورٹی کے لئے میمورنڈم سونپنا اور دھرنا دینا ڈسپلن شکنی ہے تو پھر ہمیں کہنے کے لئے کچھ بھی نہیں بچتا۔یہ واردات کا سلسلہ اس لئے زیادہ تکلیف دہ ہے کہ یہ وزیر اعظم کے پارلیمانی حلقہ بنارس میں ہوا ۔ جب وہ خود اور وزیر اعلی آدتیہ ناتھ یوگی وہاں موجود تھے۔ سیدھے طور پر کوتاہی اور انتظامیہ کی ناکامی اور لاچاری ، اکھڑ پن، افسران کے ذریعے بے توجہی سے نمٹنا و ذمہ داری سے بچنے کا معاملہ ہے۔ ہم تو وائس چانسلر ، پراکٹر کو سیدھے ذمہ دار مانتے ہیں۔ بیشک یوگی آدتیہ ناتھ نے تین ایڈیشنل سٹی مجسٹریٹ اور دو پولیس ملازمین کو ہٹا دیا ہو لیکن اصل قصوروار تو وائس چانسلر، پراکٹر اور یونیورسٹی انتظامیہ ہے، ان پر کیا کارروائی ہورہی ہے؟ ’بیٹیوں کے ہاتھوں مستقبل ‘اور’ بیٹی پڑھاؤ ۔بیٹی بچاؤ‘ جیسے کیا صرف نعرے ہیں؟
(انل نریند)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!