کروڑوں لوگوں کی لائف لائن ان ندیوں کو بچاؤ

کروڑوں لوگوں کی لائف لائن و روزی روٹی و سیاحتی کشش کی جگہ رہیں بھارت کی ندیاں آج اپنے سنہرے ماضی کی چھایہ بن کر رہ گئی ہیں۔ لگاتار سوکھتے جانے سے اس کے پاٹ سکڑنے لگے ہیں۔ آلودگی نے انہیں میلا کردیا ہے اور کہیں کہیں ندیوں کا پانی پینے تو کیا نہانے کے لائق بھی نہیں رہ گیا ہے۔ ایسے میں یہ خوشی اور تشفی کی بات ہے کہ آخر کسی نے تو ندیوں میں نئی روح ڈالنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ دنیا کی مشہور ایشا فاؤنڈیشن کی بانی ،یوگ راج، جانے مانے مصنف اور مقرر ست گورو جگی واسودیو نے یہ ملک گیر مہم چھیڑی ہے، پدم وبھوشن سے نوازے ست گورو جگی واسو دیو گاندھی جینتی (2 اکتوبر) کو دہلی میں ندی ریلی سے ختم ہونے والے 30 دنوں کی اس مہم کے دوران کنیا کماری سے ہمالیہ تک دیش کی 16 ریاستوں کا سفر خود گاڑی چلا کر طے کرتے ہوئے دیش کی جنتا کو اس بات کے لئے بیدار کررہے ہیں کہ اگر وقت رہتے ہم نے قدم نہیں اٹھایا تو اگلی پیڑھی پینے کے پانی تک کو ترس جائے گی۔ دراصل ہم اپنی ندیوں کو پہلے ہی اتنا نقصان پہنچا چکے ہیں کہ اگلی پیڑھی کو نقصان پہنچانے کیلئے کچھ بچا ہی نہیں ہے۔ یہ کام کسی ایک کے بس میں نہیں ہے، اس لئے مرکزی سرکار سے ہم چاہتے ہیں کہ وہ ندیوں کو نئی زندگی دینے کے لئے دور رس نتائج والی قابل عمل پالیسی بنائے جسے لاگو کیا جاسکے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہر انسان جو پانی پیتا ہے ندی مہم میں اپنا تعاون دے۔ ست گورو بتاتے ہیں کہ حالات کتنے خراب ہیں۔ بہت ہی خراب۔ اپنا بچپن میں نے کرناٹک میں کاویری کے ساحل پر گزارا ہے۔ یاترا کے دوران میں نے دیکھا کہ جس کاویری کو جس جگہ میں روزانہ تیر کر پار کرتا تھا وہاں اب اسے چل کر پار کیا جاسکتا ہے۔ دراصل یہ اتنی سمٹ گئی ہے اور نابود ہونے کے لئے سمندر کا سفر طے کرنے سے 870 کلو میٹر پہلے ہی تھم جاتی ہے۔ آندھرا کی کرشنا ندی تو تقریباً پوری طرح سوکھ گئی ہے۔ نرمدا 60 فیصدی سکڑ گئی ہے اور شپرا کا پانی اس کا اپنا نہیں باندھ کیا ہوا پانی ہے۔ گنگا تو دنیا کی ان ندیوں میں ہے جس کا وجود سب سے زیادہ سنکٹ میں ہے۔ ندیوں کی اس دردشا کے لئے ہم سبھی ذمہ دار ہیں۔ دیش کی 25 فیصد زمین ریگستان بننے لگی ہے۔ 55 فیصدی بنیادی طور پر تیزی سے کم ہورہی ہے۔10 سال میں ہمارے ریزرو وائر میں پانی کی سطح 30 فیصد گھٹ گئی ہے خاص کر پچھلے 7 برسوں سے تو بھارت کی تقریباً سبھی ندیاں اتنی تیزی سے سوکھ رہی ہیں کہ لگتا ہے 12 مہینے بہنے والی یہ ندیاں اگلے 15-20 برس میں موسمی ہوجائیں گی۔ حالات ایسے ہیں کہ 2030 تک ہمیں اپنی ضرورت کا محض50 فیصد پانی ہی مل پائے گا۔ اس لئے وقت رہتے اگر ہر سطح پر مناسب کارروائی نہیں کی تو ہماری ندیاں سوکھ جائیں گی اور لوگ پانی کے لئے ترسنے لگیں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!