کھسکتی معیشت : تین برس میں کم از کم سطح پر پہنچی

مسلسل پانچ سہ ماہیوں سے ترقی شرح میں جاری گراوٹ سے سرکار کا فکر مند ہونا سمجھ میں آتا ہے کیونکہ خود وزیر اعظم نریندر مودی کاخاص زور اقتدار میں آنے کے بعد سے ترقی پر رہا ہے۔ معیشت کے محاذ سے آرہی مایوس کن خبروں و معیشت کی سستی کو لیکر اپوزیشن ہی نہیں بلکہ سرکار کے حمایتی اسے گھیرنے میں لگے ہیں۔ بھاجپا ایم پی ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر فوری طور پر کچھ نہیں کیا گیا تو بینک برباد ہوسکتے ہیں، فیکٹریاں بند ہوسکتی ہیں اور معیشت مندی کا شکار ہوسکتی ہے۔ میک ان انڈیا اور اسکل انڈیا جیسی اہم اسکیموں کو اسی تصور سے شروع کیا گیاتھا کہ ان سے ترقی کو رفتار ملے گی اور روزگار پیدا ہوں گے۔ دو سہ ماہی پہلے تک بھارت نے نہ صرف چین کو پچھاڑ رکھا تھا بلکہ دنیا کی سب سے تیز رفتار والی معیشت بھی بن گیا تھا۔ مگر اس برس کی پہلی سہ ماہی میں معاشی ترقی میں نہ صرف گراوٹ آئی ہے بلکہ یہ مودی سرکار کے اقتدار میں آنے کے بعد 5.7 فیصدی کے ساتھ سب سے نچلے سطح پر بھی ہے۔ مثلاً وزیر اعظم کوشل وکاس پروگرام کو ہی لے لیں تو اس کے تحت 30 لاکھ لوگوں کو یا تو رجسٹرڈ کیا گیا یا انہیں ٹریننگ دی گئی مگر اس میں سے 10 فیصدی کو ہی روزگار مل سکا۔ مالی سال 2017-18 کی پہلی سہ ماہی میں اقتصادی ترقی محض 5.7 فیصد رہی جو تین سال میں کم از کم سطح ہے۔ ہمارے ایکسپورٹ کے سامنے چنوتیاں بنی ہوئی ہیں اور صنعتی اضافی شرح پانچ سال میں کم از کم سطح پر آگئی ہے۔ دوسری طرف مہنگائی آسمان چھورہی ہے۔ سرکار اب بھی ماننے کو تیار نہیں ہے کہ دیش اقتصادی ترقی میں سست روی پچھلے سال کی گئی نوٹ بندی ایک بڑی وجہ تھی۔اس کی وجہ سے صنعتی ترقی کے ساتھ ہی دیہی معیشت پر گہرا اثر پڑا ہے۔ ریزرو بینک کے سابق گورنر رگھو رام راجن نے حال ہی میں کہا کہ نوٹ بندی سے مستقبل میں ہونے والے دور رس فائدوں پر اس کے اسباب یہ نکلے کے فوری نقصان بھاری پڑا ہے اور اسکے علاوہ جی ایس ٹی کے سبب ہورہی ابتدائی اڑچنوں کے سبب بھی کاروباری طبقہ اور دیگر طبقوں میں کچھ الجھن کی صورتحال بنی ہوئی ہے۔ دکھ تو اس بار کا ہے کہ نوٹ بندی کی طرح جی ایس ٹی کو بھی بغیر ٹھیک سے ہوم ورک کئے لاگو کردیا گیا۔ آج پورے دیش میں جی ایس ٹی کو لیکر اتنی ناراضگی ہے کہ ہر طبقہ پریشان ہے۔ وزارت مالیات کا نظریہ یہ ہے کہ جی ایس ٹی سے بھرپور ٹیکس وصولی ہوجائے گی جس کو وہ کچھ پروجیکٹوں میں لگا دے گی۔ اس طرح فوری طور پر کچھ مانگ پیداہوگی اور معیشت حرکت میں آجائے گی۔ جی ایس ٹی سے جولائی تک تقریباً 50 ہزار کروڑ روپے کے غیر بالواسطہ ٹیکس کی وصولی ہوچکی ہے۔ لاکھوں کمپنیاں جی ایس ٹی سسٹم پر ڈھنگ سے عمل نہیں کررہی ہیں۔ کچھ کو تو ریٹرن فائل کرنے میں مشکلیں آرہی ہیں تو کچھ کو سلیب سسٹم سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ اس بات کی بھی فکر ہے کہ دیش کے دیگر حصوں میں سیلاب کے باوجود دیش کے ایک تہائی ضلع خوشک سالی کی زد میں ہیں جس کا اثر آنے والے وقت میں مہنگائی پر پڑ سکتا ہے۔دیش کے آدھے حصے میں ژالہ باری اور باقی حصے میں خوشک سالی درج کی گئی اس لئے غذائیت کی پیداوار کو لیکر مطمئن نہیں ہوا جاسکتا ہے۔ دنیا کی معیشت میں ہندوستانی برآمدات بڑھانے کی کوئی گنجائش نہیں نکل رہی ہے۔ کل ملا کر چاروں طرف سے راستہ بند دکھائی دیتا ہے۔ حقیقت میں سرکار کو صنعتی ترقی کے ساتھ دیہی علاقے کی مایوسی دور کرنے کی دوہری چنوتی سے نمٹنا ہے، تاکہ وکاس کا انجن تیزی سے آگے بڑھ سکے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!