ایک اور قلم کا سپاہی شہید ہوا

ایک اور صحافی قتل کردیا گیا ہے۔ سینئر صحافی کے جے سنگھ (69) و ان کی ماں گورچرن کور (92) کا ان کے موہالی میں واقع مکان میں قتل کردیا گیا۔ کے جے سنگھ کے پیٹ و گلے پر چاقوں سے حملہ کیا گیا جبکہ ان کی ماں کو گلا دبا کر مارا گیا۔ دونوں کی لاشیں الگ الگ کمروں میں پڑی ملیں۔ قاتل کے جے سنگھ کی 20 سال پرانی ہرے رنگ کی فورڈ آئیکان کار اور ایل ای ڈی بھی لے گئے۔ چنڈی گڑھ میں انڈین ایکسپریس، دی ٹریبون اور ٹائمس آف انڈیا کے سابق نیوز ایڈیٹر کا قتل پروفیشنل قاتلوں نے کیا ہوسکتا ہے۔ جناب سنگھ کے جسم پر 14-16 چاقو مارے جانے کے نشان تھے۔ ایک نشان تو ان کے دل کے قریب تھا۔ ان کے داہنے ہاتھ کی انگلیاں بھی کٹی ہوئی تھیں۔ گذشتہ کچھ دنوں سے کئی صحافیوں کے قتل کے معاملے سامنے آئے ہیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق جانچ کو بھٹکانے کے لئے لٹیرے گھر سے ٹی وی اور کار لے گئے ہیں کیونکہ گھر کا قیمتی سامان گھر میں ہی پڑا ہے۔ یہاں تک کہ کے جے سنگھ کے گلے میں سونے کی چین اور ماں گورچرن کور کا سارا سونا بھی ویسے ہی پڑا تھا۔ کے جے سنگھ نے گھر میں ہی اسٹوڈیو بنا رکھا تھا۔ ان کا لیپ ٹاپ اور کیمرہ بھی لٹیرے نہیں لے کر گئے۔ یہ حادثہ گذشتہ شنی وار کو ہوا۔ پنجاب، ہریانہ اور مرکز کے زیر انتظام علاقے چنڈی گڑھ میں میڈیابرادری نے ان مبینہ قتلوں کی سخت مذمت کی ہے اور مجرموں کی فوری گرفتاری کی مانگ کی ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلی کیپٹن امرندر سنگھ کے حکم پر پنجاب پولیس نے اس قتل کی جانچ کے لئے آئی جی (جرم) کی رہنمائی میں خصوصی جانچ ٹیم بنائی ہے۔ پولیس کو شک ہے کہ کسی نا معلوم مقصد کیلئے ان کا قتل کیا گیا ہے۔ گوری لنکیش اور آسام میں ٹی وی صحافی کے قتل کے بعد اب کے جے سنگھ کا قتل؟ صحافیوں پر ہورہے لگاتار حملوں کو دیکھتے ہوئے 2 اکتوبر کو نئی دہلی میں صحافی پرامن دھرنا دیں گے۔ پریس کلب آف انڈیا، انڈین وومن پریس کارپس، پریس ایسوسی ایشن اور فیڈریشن آف پریس کلب نے مل کر یہ ریزولوشن پاس کیا۔ بیٹھک میں مانگ کی گئی کہ صحافیوں کے قتل اور انہیں دھمکانے جیسے معاملوں میں تمام ریاستی سرکاریں قانون کے تحت پابندی وقت کے ساتھ ایکشن لیں۔ اس دوران صحافیوں پر لگاتار حملے کو لیکر تشویش ظاہر کرتے ہوئے جمہوریت پر حملہ قرار دیا گیا ہے پھر چاہے وہ سوشل میڈیا پر دھمکی ہو یا پٹائی ہو یا پھر قتل ہو۔ صحافیوں نے بیٹھک کے دوران آواز اٹھائی کے زیادہ تر صحافی بنا کسی سوشل تحفظ کے جی رہے ہیں۔ پنشن ، ہیلتھ بیمہ جیسی سہولیات بھی انہیں نہیں ملتیں۔ زیادہ تر صحافی اپنے خاندان میں اکیلے کمانے والے ہیں۔ صحافیوں پر حملہ پریس کی آزادی پر سیدھا حملہ ہے جسے روکنے کی سخت ضرورت ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟