نہتے شردھالوؤں پربزدلانہ حملہ!

ایک بار پھر دہشت گرد کشمیر میں امرناتھ یاتریوں پر حملہ کرنے میں کامیاب رہے۔ امرناتھ یاتریوں پر پچھلے 17 برس میں یہ بڑا حملہ ہے۔ 1 اگست 2000 کو پہلگام کے بیس کیمپ پر حملہ میں 30 لوگوں کی موت ہوگئی تھی۔ پیر کی رات دہشت گردوں نے اننت ناگ میں امرناتھ یاتریوں کی بس پر حملہ کرکے 7 شردھالوؤں کو موت کی نیند سلا دیا اور 30 سے زیادہ لوگ زخمی ہوگئے۔ مرنے والوں میں 5 خواتین بھی تھیں۔ حملہ کا شکار ہوئے سبھی مسافر گجرات کے بلساڑ علاقہ کے رہنے والے ہیں۔ وہ یاترا پوری کر جموں لوٹ رہے تھے۔ عام طور پر سبھی گاڑیاں محفوظ دستوں کے درمیان چلتی ہیں پیر کو قافلہ شام چار بجے لوٹ گیا تھا لیکن ٹورسٹ بس اوم ٹریول کی تھی جس پرحملہ ہوا وہ قافلے سے الگ ہوگئی تھی۔ بس میں سوار مسافر یوگیش نے بتایا کہ بس پنکچر ہوگئی تھی ۔ اسے ٹھیک کرنے میں دو گھنٹے لگے اس وجہ سے بس قافلہ سے الگ ہوگئی۔ رات 8:20 پر بس پر حملہ ہوگا۔ فائرننگ کے درمیان ڈرائیور نے بس کو وہاں سے تیزی سے نکال لیا اس سے کئی لوگوں کی جان بچ گئی۔ بس میں اس وقت 60 شردھالو سوار تھے۔ پیر کو یاترا کا 13 واں دن تھا۔ ساون کا پہلا دن تھا۔ حملہ کے باوجود 29 جون سے شروع ہوئی امرناتھ یاترا نہیں رکے گی۔ وزیر اعلی محبوبہ نے پوری حفاظت کا یقین دلایا ہے۔ 40 دن تک چلنے والی یاترا اننت ناگ کے 28.2 کلو میٹر لمبے پہلگام اور گندربل کے 9.5 کلو میٹر لمبے بالتال راستے سے جاتی ہے۔ 7 اگست کو رکشہ بندھن پر یاترا ختم ہوگی۔ امرناتھ کی پوتر گپھا 3880 میٹر کی اونچائی پر واقع ہے۔ امرناتھ یاترا کے لئے اس بار اب تک کا سب سے بڑا اور سخت انتظام کیاگیا تھا۔ 40 دن چلنے والی یاترا کی حفاظت کے لئے 40 ہزار سے زیادہ جوان تعینات کئے گئے ہیں۔ اس میں فوج ، جموں کشمیر پولیس، سی آر پی ایف اور بی ایس ایف کے جوان شامل ہیں۔پہلی بار پوری یاترا کی ٹریکنگ سیٹلائٹ کے ذریعے کی جارہی ہے اس کے ساتھ ہی ڈرون تعینات کئے گئے ہیں تاکہ شردھالوؤں کی نگرانی کی جاسکے۔ اس کے ساتھ ہی پورے روٹ پر موبائل بنکر گاڑیاں لگائی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ جموں سے لیکر بالتال اور پہلگام تک سکیورٹی فورسز کی روڈ اوپننگ پارٹیاں تعینات کی گئی ہیں جو ہر دن مسافر گاڑیوں کو محفوظ شاہراہ پر آنے جانے میں مدد کرتی ہیں۔ سوال یہ کیا جارہا ہے بس کو بے وقت چلنے سے روکا کیوں نہیں گیا؟ اس بس کے بارے میں کب کیسے پتہ چلا ؟ گجرات کی اس بس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اسے امرناتھ شرائین بورڈ کے پاس رجسٹرڈ نہیں کیا گیا؟ وہ بغیر رجسٹریشن آخری پڑاؤ بالتال تک کیسے پہنچی؟ بس مسافر کو حفاظتی کوچ میں لیکر چلنے والے قافلے میں بھی شامل نہیں ہوئی ۔ پابندی کے باوجود شام 7 بجے کے بعدبھی ہائی وے پر کیسے چلی؟ دہشت گردوں کو ایک نازک موقعہ ملا اور انہوں نے امرناتھ یاتریوں پر حملہ کردیا۔ مانا جارہا ہے کہ دہشت گردوں کے پاکستانی گروپ نے اسے انجام دیا ہے۔ وہیں یاترا سے پہلے لگاتار کی جارہی حفاظت سکیورٹی ایجنسیوں کے جائزے میں بھی یہ بات سامنے آئی تھی کہ امرناتھ یاترا پر حملہ کو لیکر مقامی دہشت گردوں اور پاک دہشت گردوں کے درمیان اختلافات تھے۔ خاص طور پر جیش محمد اور لشکر طیبہ یاترا پر حملہ کے لئے آمادہ تھے جبکہ ساؤتھ کشمیر میں مقامی دہشت گرد یاترا کو نشانہ بنانے کے حق میں نہیں تھے اس کی وجہ یہ ہے کہ امرناتھ یاترا و مقامی ٹورازم سے کشمیریوں کو بڑا اقتصادی فائدہ ہوتا ہے۔ اسی غیر اعلانیہ معاہدے کے تحت پچھلے 15 سال سے کشیدگی کے باوجود امرناتھ یاتریوں پر کوئی آتنکی حملہ نہیں ہوا تھا۔ چوک کہاں ہوئی اس کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ ایک چونکانے والی حقیقت یہ بھی سامنے آئی ہے کہ جموں و کشمیر پولیس نے پیر کو لشکر طیبہ کے ایسے موڈیول کمانڈ کو بے نقاب کیا ہے جس میں اترپردیش کے مظفر نگر کے باشندے سندیپ کمار شرما عرف عادل بھی سرگرم تھا۔ آتنکی تنظیم سے جڑے کسی غیر کشمیری ہندو کی گرفتاری کا یہ پہلا موقعہ ہے۔ سندیپ عادل کے نام سے دہشت گرد گروپ میں شامل ہوا تھا جس نے جون میں اننت ناگ کے اچھابل میں سی ایم او فیروز احمد ڈار سمیت کئی پولیس کشمیریوں کا قتل کردیا تھا۔ جے کے پولیس کے انسپکٹر جنرل منیر خاں نے بتایا کہ پولیس ملازمین کے قتل کے ماسٹر مائنڈ اور لشکر کے کمانڈر بشیر لشکری ایک جولائی کو اننت ناگ کے جس گھر میں ڈھیرہوا تھا سندیپ بھی وہاں چھپا ہوا تھا۔ جب پولیس کو پتہ چلا کہ وہ مقامی نہیں ہے اس سے کڑی پوچھ تاچھ ہوئی اس کی نشاندہی پر منیر کو گرفتار کیا گیا۔ سندیپ گرمیوں میں وادی میں ویلڈنگ کا کام کیاکرتا تھا اور سردیوں میں وہ پنجاب کے پٹیالہ چلا جاتا تھا۔ وہاں اس کے ملاقات کلگام کے باشندے شہید احمد سے ہوئی۔ ایک جنوری کو دونوں نے کلگام میں منیر و مظفر احمد کے ساتھ مجرمانہ گروہ بنایا اور واردات کرنے لگے۔ اسی درمیان سندیپ کی ملاقات لشکر کے خطرناک آتنکی شکور احمد سے ہوئی اور وہ گروہ کے ساتھ ان سے مل گیا اور دہشت گردوں کے لئے انہوں نے کئی بینک اور اے ٹی ایم لوٹے۔ پولیس پر حملہ کرکے ان کے ہتھیار بھی لوٹے۔ جرائم پیشہ بھی اب دہشت گردی کا دامن تھام رہے ہیں۔ یہ نئی چنوتی ہے ،مستقبل میں ہمیں نئے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امرناتھ یاتریوں پر حملہ کا مقصد کیا ہے؟ مقصد تو فرقہ وارانہ ماحول خراب کرنا لگتا ہے۔ مقصد رہاہوگا کہ مسافروں پر حملہ کے رد عمل میں جموں و کشمیراور دیش کے دوسرے حصوں میں آپسی بھائی چارہ بگڑے اور متعلقہ بس گجرات کی تھی، تو معاملے کو گجرات سے شروع کر پی ایم مودی تک جوڑ کر سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یعنی کئی طرح سے بدنام ہو۔ ریاست میں پی ڈی پی اور بی جے پی مخلوط سرکار ہونے پر بھی حملہ کردیا۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ساتھ ہی آتنکی صاف چنوتی پیش کرنا چاہتے ہیں کہ کتنی بھی حفاظت کے باوجود جب وہ جو چاہیں اور جہاں چاہیں حملے کرسکتے ہیں۔ یہ معاملہ علیحدگی پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف لگاتار جاری بڑی کارروائی کا ایک جواب دینا بھی ہوسکتا ہے۔ اس حملہ کو حالانکہ مقامی کشمیریوں کی نظر سے صحیح نہیں مانا جارہا ہے امرناتھ گپھا کی کھوج ایک مسلمان گڈریہ نے ہی کی تھی۔ 1850 میں کھوج کرنے والے گڈریہ ملک کے پریوار کے لوگوں کا اب بھی امرناتھ گپھا سے فائدہ ملتا ہے۔ ان لوگوں کی آستھا بھی گپھا کے گئیں ابھی بھی برقرار ہے اس وجہ سے اسے کشمیریت کی علامت مانا جاتا ہے۔ ہر سال ہونے والی یاترا جس کا عام کشمیر بے صبری سے انتظار کرتے ہیں، یاترا آتے ہی ٹورازم بڑھتی ہے۔ ہم اس آتنکی حملہ میں مارے گئے شردھالوؤں کے خاندانوں سے اپنا دکھ و ہمدردی ظاہر کرنا چاہتے ہیں اور ان کو شردھانجلی دیتے ہوئے دہشت گردوں کو چنوتی دیتے ہیں کہ نہ تو ہم ان سے ڈرنے والے ہیں اور نہ ہی اس بزدلانہ حرکت سے امرناتھ یاترا روکی جاسکے گی۔ اوم نوشوائے!
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!