نوٹ بندی۔کرپشن اور بلیک منی۔۔۔(1)

وزیر اعظم نریندر مودی نے بلیک منی اور کرپشن کودور کرنے کیلئے نوٹ بندی کی ہے۔ اس کام میں انہیں دیش کی حمایت بھی ملی ہے۔ جتنے بھی سروے آئے ہیں ان میں زیادہ تر عوام نے ان کی حمایت کی ہے۔ عام طور پر جنتا خوش تھی لیکن یہ خوشی کیوں تھی؟ اس کی سب سے بڑی وجہ تھی ہمارا انسانی برتاؤ ۔ سوشل میڈیا میں ایک پوسٹ بالکل کھرا اترتا ہے۔ عام آدمی پریشان ہے ، پھر بھی خوش ہے کیونکہ نوٹ بندی سے غریب سوچتا ہے کہ دھنا سیٹھوں کی واٹ لگ گئی ہے، نوکر سوچتا ہے کہ مالک کی واٹ لگ گئی ہے۔ مریض سوچتا ہے ڈاکٹر کی واٹ لگ گئی ہے۔ کلرک سوچتا ہے صاحب کی واٹ لگ گئی ہے۔ جن سیوک سوچتا ہے کہ منتظم کی واٹ لگ گئی ہے، ایڈ منسٹریٹر سوچتا ہے کہ نیتاؤں کی واٹ لگ گئی ہے اور نیتا سوچتا ہے کہ اپوزیشن کی واٹ لگ گئی ہے۔ سبھی دکھی ہیں پھر بھی خوش ہیں ۔۔۔ دوسروں کو دکھی دیکھ کر خوش ہونا انسان کا مزاج جو ہے۔ آکسفورڈ انگلش ڈکشنری کرپشن کی کچھ ایسی تشریح کرتی ہے۔ اقتدار میں بیٹھے لوگوں کے ذریعے بے ایمانی یا نتیجے سے بھرپور برتاؤ، خاص طور پر جس میں رشوت کا تعلق ہو، دنیا کے زیادہ تر لوگ اس کی حمایت کریں گے لیکن ہم نے تشریح کا دائرہ بڑھا کر اس کی دھار ختم کردی ہے۔ اصلی اہمیت کے لفظ تو اقتدار میں بیٹھے اور رشوت ہیں۔ بھارت میں عام آدمی کا اقتدار میں ہونے سے دور دور کا کوئی واستہ نہیں ہے۔ ہم میں سے40 فیصدی سے زیادہ غریب ہیں۔ ہمارے درمیان مشکل سے دو فیصدی لوگوں کے پاس ٹیکس چکانے لائق وسائل ہیں۔ آج زیادہ تر بھارت کی عوام بینکوں کے باہر لائن میں اپنے ہی کمائے پیسوں کو لینے کے لئے کھڑی ہے۔ اس کرپشن کو دور کرنے کے لئے جو نوٹ بندی کی گئی تھی اس میں کرپشن ہو رہا ہے۔ دلالوں کی ایک نئی جماعت 8 نومبر سے پیداہوگئی ہے۔ اس میں بینک افسر، پولیس افسر، انکم ٹیکس افسر اور کالی کمائی کو سفید نوٹ میں تبدیل کرنے کی نئی خصوصیت پیشہ ور دلالوں کی ٹیمیں ہر شہر میں وجود میں آگئی ہیں۔ 100 روپے دیکر 70 روپے لینا عام بات بن گئی ہے۔ کرپشن کی شکل بدل گئی ہے۔ کرپشن اور کالا دھن ویسا ہی ہے جیسا 8 نومبر سے پہلے تھا۔ رہی بات مزدور، کسان، عام آدمی کی تو اس کا برا حال ہوگیا ہے۔ جہاں پہلے کام ملا ہوا تھا وہاں تک جانے کے لئے آج مزدور کے پاس کرایہ تک نہیں ہے اور اپنے علاقے میں اسے کام نہیں مل پا رہا ہے۔ گھر میں راشن نہیں ہے، کیونکہ روزانہ کما کر راشن لاتے تھے۔ دوکاندار بھی راشن ادھار نہیں دے رہا ہے بھوکے پیٹ دن گزارنے پڑ رہے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کو کھانے کا سامان پڑوسیوں، رشتے داروں سے مانگ کر اپنے گھر والوں کا پیٹ بھر رہے ہیں۔ ایسی باتیں آج قریب قریب سبھی دہاڑی مزدور کرنے پر مجبور ہیں۔ روزانہ 150 سے 250 روپے کمانے والا رام لال نوٹ بندی کے بعد کھانے کے لئے لنگر پر منحصر ہے۔ اس کا کہنا ہے دو ٹائم کھانے پر 60 سے80 روپے خرچ ہوجاتے تھے حالات اتنے برے ہوگئے ہیں کہ اب گورو دوارے کے سہارے ہی رہنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ14 نومبر سے روز گورودوارہ بنگلہ صاحب آکر اپنا پیٹ بھر رہے ہیں۔ دہلی سکھ گورودوارہ پربندھک کمیٹی سے ملی اطلاع کے مطابق9 نومبر کے بعد سے دہلی کے سبھی گورودواروں (بنگلہ صاحب، شیش گنج صاحب، رکاب گنج، نانک پیاؤ، مجنوں کا ٹیلہ) میں لنگر کھانے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ لگاتار نقدی کی قلت جھیل رہی عوام نے نوٹ بندی کے مضر نتائج اب سامنے آنے لگے ہیں۔
غازی آباد کے نیو آریہ نگر میں دوا کے لئے پیسہ نہ ہونے کے سبب ایک بزرگ کی موت ہوگئی۔ رشتے داروں کا کہنا ہے کہ نوٹ بندی کے چلتے گھرمیں نقدی نہیں تھی۔ جمعہ کو چیک سے روپے نکالنے کی کوشش کی گئی لیکن گھنٹوں بینک کے باہر کھڑے رہنے پر بھی بیرنگ لوٹنا پڑا وہیں پیر کو بھی یہی حال رہا۔ ایسے میں بزرگ کا علاج نہیں ہوسکا۔ منگلوار کو صبح ان کی موت ہوگئی۔ اس کے علاوہ گھر میں انتم سنسکار کے لئے بھی پیسہ نہ ہونے پر بزرگ کی پوتی بینک پہنچی تو بینک ملازم نے کیش دینے میں معذوری جتائی اور کہا کہ کیش ختم ہوگیا ہے۔ ایسے میں لوگوں نے 17 ہزار روپے اکھٹے کر متاثرہ خاندان کو دئے جب جاکر انتم سنسکار ہوسکا۔ نوئیڈا میں 70 سالہ بزرگ شخص اپنی بیوی کی لاش گھر میں رکھ کر دو دن تک کیش کے لئے بینک کے چکر کاٹتا رہا۔ دوسرے دن بھی جب بینک سے پیسے نہیں ملے تو وہ اپنی بیوی کی لاش کو لیکر احتجاج کے طور پر سڑک پر بیٹھ گئے۔ اتنا ہونے کے بعد سرکاری عملہ حرکت میں آگیا۔ حالانکہ بینک سے روپے ملنے میں شام ہوگئی۔ دوسرے دن بھی متوفی عورت کی لاش کا انتم سنسکار نہیں ہوسکا۔ دیش میں نوٹ بندی کا اثر مختلف علاقوں میں دکھائی دینے لگا ہے۔ قریب ڈھائی ہفتے سے زیادہ وقت ہوگیا ہے پر حالات ابھی تک پوری طرح نورمل نہیں ہوپا رہے ہیں۔ سب سے زیادہ پریشان کسان ہے۔ پیسے کی کمی سے لڑ رہے کسان چیزوں کے بدلے کا طریقہ اپنانے پر مجبور ہیں۔ اترپردیش، بہار، چھتیس گڑھ میں کسان کھیتی سے جڑی اپنی مشکلوں کا سامنا کررہا ہے۔ میں کل بتاؤں گا کہ آج کی تاریخ میں دھنا سیٹ تو خوش ہیں نہ تو وہ لائنوں میں لگ رہے ہیں ،نہ انہیں نوٹ بندی کا کوئی اثر ہوا ہے۔ زیادہ تر دھنا سیٹھوں نے اپنی بلیک منی نئی کرنسی میں بدل لی ہے۔ اس کرپشن کو جس کو لیکر یہ نوٹ بندی ہوئی ہے اسی میں کرپشن کا بول بالا نظر آرہا ہے۔ (جاری)
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!