اوبامہ کے دورہ سے ناخوش چین اور روس کو منانا ضروری ہے

امریکہ کے صدر براک اوبامہ کے دورۂ ہند سے پڑوسی ملکوں کے منہ لٹکے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ ساتھ چین ۔ روس بھی اوبامہ اور مودی کے درمیان بنی کیمسٹری سے پریشان ہیں۔ چین کے سرکاری میڈیا نے لکھا ہے کہ اوبامہ اور مودی کے درمیان کے رومانس کو زیادہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔کیونکہ دونوں ملکوں کی امیدوں کے پورا ہونے سے پہلے ہی کئی مشکل دور کی بات چیت لٹکی ہوئی ہیں۔ چین کے سرکاری اخبار ’گلوبل ٹائمس‘ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ امریکہ اور بھارت میں جوش بھرے ماحول کے درمیان جو رومانس نظر آرہا ہے اس سے دونوں ملکوں کے باہمی رشتوں میں کسی بڑی پیش رفت کی امید نہیں ملتی۔ مضمون میں مزید لکھا ہے کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان اعلی سطح کے دوروں کے دوران اکثر بڑی بڑی باتیں اور معاہدے ہوتے ہیں لیکن دورہ کے ختم ہونے کے بعد ان پر عمل نہیں ہوا ہے اور یہ معاہدے بیانات سے میل نہیں کھاتے۔ اس دورے کے ایسے ہی انجام کی امید ہے۔ اوبامہ کے دورے کو لیکر روس اور چین کی نظریں تھوڑی ترچھی ہونے کی بھنک ہندوستان کو پہلے ہی سے تھی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اوبامہ کے دورہ سے پہلے سشما سوراج کے دورۂ چین کا پروگرام تیار کردیا گیا تھا ساتھ ہی وزیر اعظم مودی کے چین اور روس دورہ کے پروگرام کو بھی بنایا گیا ہے ۔ سرکاری ذرائع کے مطابق وزیر اعظم مودی مئی کے تیسرے ہفتے میں چین جائیں گے۔ اس کے بعد ان کا پلان روس کا دورہ کرنے کا ہے۔ وزیر اعظم مودی سشما کی تیار کردہ بنیاد پر ہی ان دونوں ملکوں کی حکمت عملی کی کوششوں کو آگے بڑھائیں گے۔ بھارت۔ امریکہ کے مضبوط ہوتے رشتوں سے ناخوش چین نے ایک طرف جہاں اسے سطحی تعلق قراردیا وہیں اس نے اقوام متحدہ میں ہندوستان کی مستقل رکنیت اور نیوکلیائی کلب میں بھارت کی اینٹری میں رکاوٹ ڈالنے کا بھی اشارہ کردیا ہے۔ ساتھ ہی ناخوش چین کنٹرول لائن پر نئے سرے سے تنازعہ کھڑا کرسکتا ہے۔ حالانکہ روس نے اس دوستی پر کھل کر کوئی رائے زنی تو نہیں کی مگر یوکرین کے معاملے میں ہندوستانی اسٹیج سے اوبامہ کی وانی اسے پسند نہیں آئی۔ سابق خارجہ سکریٹری سلمان حیدر نے کہا کہ ڈپلومیسی میں ایک ساتھ آنے اور دو کو ناراض ہونے کا خطرہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔ بھارت کو چین اور روس دونوں کو پیغام دینا ہوگا۔ اس کا اور امریکہ کا رشتہ دونوں ملکوں کی مخالفت پر نہیں ٹکا ہے کیونکہ آنے والے وقت میں بھارت کو اقوام متحدہ میں مستقل رکنیت کے ساتھ ساتھ نیوکلیائی کلب میں اینٹری کیلئے ان دونوں ملکوں کی مدد کی ضرورت پڑے گی۔ ایسے میں اوبامہ کے دورہ کے بعد بھارت کیلئے چین اور روس کو بھی منانے میں معاملے میں ڈپلومیٹک امتحان سے گزرنا ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیسے مودی اس میں کامیابی حاصل کرپاتے ہیں؟ بھارت کے سامنے اس وقت اوبامہ کے دورہ سے چین اور روس کی ناراضگی دور کرنے کی بڑی چنوتی ہے۔ وزیر اعظم نے کیونکہ عرصے تک چین کے سفیر کے کردار اور روس میں واقع بھارت کے سفارتخانے میں کام کرنے کے تجربوں کی وجہ سے جے شنکر کو ان دونوں ہی ملکوں میں ہی کام کرنے کا تجربہ ہے اس لئے جے شنکر کے نام پر پوری طرح ان رشتوں کو بہتر کرانے میں داؤ لگایا ہے۔ امریکہ کی طرح روس بھی بھارت کا اچھا دوست ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟