نواز شریف کی گھر واپسی !

پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف چار سال بعد پاکستان لوٹ آئے ہیں ۔انہوںنے اپنی گھر واپسی کے پہلے ہی دن اپنے حمایتیوں کی ایک بڑی ریلی کی اور لاہور کبھی پاکستان مسلم لیگ نواز گروپ کا گڑھ مانا جاتا تھا۔لیکن بعد میں عمران خان کی حمایت میں نظر آنے لگا۔نوازشریف کی ریلی سے ان کے سیاسی مستقبل کا اشارہ ملتا ہے ۔اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ وہ آنے والے دنوں میں ہونے والے عام چناو¿ میں اپنی پارٹی کے نظریہ کو صاف کریں گے ۔اپنی تقریر میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ ان کا بدلے کی سیاست میں کوئی بھروسہ نہیں ہے اور وہ دیش کو اقتصادی ترقی کی راہ پر آگے بڑھانا چاہتے ہیں ۔پاکستان کے سیاسی مبصر ان کے نظریہ کی تعریف کررہے ہیں ۔وہیں کچھ تزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ انہوں نے اپنے خطاب میں دیش کے فوجی ادارے کو سخت پیغام دیا ہے ۔نواز شریف کا کہنا ہے کہ فوج نے انہیں اقتدار سے ہٹانے میں اہم رول ادا کیا تھا ۔وہیں کچھ نکتہ چینی کرنے والوں کو کہنا ہے کہ وہ پاکستان کی معیشت کو پٹری پر لانے کے لئے کوئی روڈ میپ پیش نہیں کر سکے ۔سب سے پہلے بعد نواز شریف کے خطاب کے خاص نکتوں کی ہے نوازشریف لاہور کے گریٹر اقبال پارک میں اپنے ورکروں سے ملے کئی سالوں بعد پہلی بار ان سے مخاطب ہوئے تھے۔یہاں پورے پاکستان سے ان کے ورکر اکٹھے ہوئے تھے ۔ورکروں میں نوازشریف کی ایک جھلک پانے کے لئے بڑا جوش صاف دکھائی دیا۔جب نواز شریف اسٹیج پر آئے تو ان کی آنکھیں نم تھیں ۔اور کہا کہ آپ لوگوں کو دیکھنے کے بعد میں اپنا سب دکھ اور درد بھول گیا ہوں ۔حالانکہ انہوں نے یہ بھی کہا2017 کے بعد ملے کچھ زخم کبھی نہیں بھر پائیں گے ۔پھر انہوںنے غالب کے شعر کو یاد کرتے ہوئے کہا “ زندگی اپنی کچھ اس شکل سے گزری غالب ہم بھی کیا کریں گے خدا رکھتے تھے کانپتی ہوئی آواز میں انہوں نے بتایا کہ ضلع وطن ہونے کے چلتے وہ اپنے والد ،ماں اور اہلیہ کے جسد خاکی کو قبر میں نہیں اتار پائے ۔ان کی سیاست کی قیمت ان کے خاندان والوں کو چکانی پڑی ہے ۔انہوںنے یہ بھی بتایا کہ جیل سے انہیں ان کی مررہی بیوی سے بات تک کرنے کی اجازت نہیں ملی اور یہ بھی بتایا کہ کس طرح ان کی بیٹی کو ان کے سامنے حراست میں لیا گیا ۔اپنے خطاب میں بار بار یہ دہرایا کہ وہ ان سب کا کوئی بدلہ نہیں چاہتے ہیں ۔انہوںنے نا تو فوج اور نا ہی عدلیہ کے تئیں کسی تلخ لہجے کا استعمال کیا ۔حالانکہ انہوں نے مانا فوج اور جج صاحبان کی سازشوں کے وہ شکار ہوئے تھے ۔انہوں نے سیاست میں اپنے چالیس سالہ تجربہ کا ذکر کرتے ہوئے کہااس کا لب ولباب یہی ہے کہ آئینی حصہ داروں کے متحد ہو کر کام کرنے پر ہی کوئی بھی دیش ترقی کر سکتا ہے ۔انہوں نے کہا ہمیں ایک نئی شروعات کرنی ہوگی ۔اپنے خطاب میں محاذی حریف عمران خان کا نام صرف ایک بار لیا ۔اور کہا کہ وہ اپنے حریفوں کا نام لے کر ان کے جیسا رویہ نہیں دکھانا چاہتے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟