ایودھیا تنازعہ:مقدمہ کےساتھ اہم اشو اور ان پر دی دلیلیں!
ایودھیا تنازعہ پر چالیس دن چلی سماعت کے دوران ہندو اور مسلم فریق نے زوردار دلیلیں پیش کیں ۔ہندو فریق نے زمانہ قدیم سے لے کر اے ایس آئی اور تقاضوں پر زود راد دلیلیں دیں ۔سماعت کے دوران ہندو فریق نے کہا کہ سال 1526میں مندر ڈھا کر مسجد بنائی گئی تھی۔ایسا کر کے بابر نے خود کو سبھی قاعدہ قانون سے بالا تر رکھ لیا ۔اس کی حرکت کو قانونی نہیں بتایا جا سکتا بابر کی تاریخی غلطی کو درست کرنے کا وقت آگیا ہے ۔سپریم کورٹ میں چلی سماعت کے بارے میں ہم نے سینر وکیلوں کی مدد سے ان سات اہم اشوز کو چنا جو سب سے زیادہ توجہ کا مرکز رہے ۔ان پر دونوں فریقوں کے ذریعہ زوردار دلیلیں ہوئیں ۔آئیے جانتے ہیں یہ اہم اشو کون سے ہیں اور اس پر دونوں فریقین کی طرف سے کون سی دلیلیں دی گئیں ۔ہندو فریق:رام للا براجمان سے کہا 2.77ایکٹر متنازعہ زمین پر مندر تھا جس کی جگہ بابر نے مسجد بنائی 185کھمبے اور ان پر نقاشی اور اے ایس آئی کی رپورٹ اس کی تصدیق کرتی ہے ۔بھلے ہی مسجد بن گئی لیکن اس پر مالکانہ حق ہندوﺅں کا رہا ۔نرموہی اکھاڑے نے کہا کہ متنازعہ جگہ پر ہم شروع سے دیوتا کے سیوک رہے ہیں ۔مالکانہ حق ہمارا ہے ۔سنی وقف بورڈ:مسجد چار سو سال سے تھی برطانیوی گرانٹ بی دیا کرتے تھے انگریزوں نے صرف عبادت کا حق دیا تھا ۔زمین پر قابض کون:ہندو فریق:سال 1934کے بعد اس مقام پر مسلمانوں نے نماز ادا کرنا بند کر دی ۔نرموہی اکھاڑانے کہا کہ مسلم فریقین نے بھی مانا ہے کہ ہم سال 1855سے سیوک کے کردار میں ہیں ۔مسلم فریق:اس میں نماز سے زبردستی روکا گیا ۔سال 1934کے بعد سے باقاعدہ نماز بند ہو گی ۔گواہوں نے تصدیق کی ہے کہ جب نماز کی کوشش کی تو جیل میں ڈال دیا گیا ۔بھلے ہی نماز بند ہوئی ہو لیکن قبضہ ہمارا رہا ۔رام کی صحیح پیدائشی مقام:ہندو فریق:مسجد کے مرکزی گنبد کے نیچے والا مقام ہی بھگوان رام کا صحیح جنم استھان ہے ۔وہیں مسلم فریق کا کہنا ہے کہ یہ جو دعوی کر رہے ہیں وہ اس پہلو پر مبنی ہے کہ پجاری نے کہا کہ انہیں بھگوان رام نے سپنے میں آکر اس جگہ کی جانکاری دی ۔ایسے دعوے کو مانا نہیں جا سکتا ۔متنازعہ جگہ کے قریب جنم استھان کے نام سے ایک مندر ہے کچھ لوگ اسے رام کا جنم استھان مانتے ہیں وہیں کچھ لوگ رام چبوترے کو بھگوان رام کا جنم استھان بتاتے ہیں تو دعوی صحیح کیسے ؟:اے ایس آئی رپورٹ کا دعوی :ہندو فریق متنازعہ مقام پر کھدائی کے بعد اے ایس آئی رپورٹ میں صاف ہے کہ وہاں سے ملی چیزیں اور کھمبے کسی مندر کے ہیں ۔یعنی وہاں پہلے مندر تھا ۔قرآن شریف کے مطابق مندر پر کسی بھی طرح کی کشیدہ کاری مناہی ہوتی ہے ۔مسلم فریق :وہ رپورٹ محض ماہرین کے نظریات ہیں سماعت کے وقت اے ایس آئی بھاجپا کے ایک وزیر کے اشارے پر کام کر رہی تھی ۔کئی ایسی مسجدیں ہیں جن پر پھول پتیاں بنی ہوئی ہیں ۔متنازعہ مقام پر ملے باقیات عیدگاہ کے تو ہو سکتے ہیں ۔اگر مندر کے نہیں ۔مندر کی جگہ مسجد کیسے بنی؟لیکن ہندو فریق :بابری مسجد تعمیر کے لئے مغل بادشاہ بابر نے توڑوایا تھا ۔یا اورنگ زیب نے ۔اس کا ثبوت یا دستاویز نہیں ہے ۔اصل میں متنازعہ ڈھانچہ مندر تھا جسے مسجد میں تبدیل کر دیا گیا تھا ۔وہاں مسجد کا نئے سرے سے تعمیر ہوئی نہیں تھی ۔مسلم فریق:متنازعہ جگہ پر کوئی مندر نہیں تھا ۔سال 1527میں بابر کے کہنے پر اس کے کمانڈر میر باقی نے ایک چٹیل میدان زمین پر مسجد بنوائی تھی اس کا ذکر اسلامی کتابوں میں بھی ہے ۔ہندو فریق :رام اور اس کی جنم بھومی آستھا کا مرکز ہے لو گ اسے بھگوان کی طرح پوجتے ہیں اس لئے رام للا جوڈیشل فریق ہیں ۔مسلم فریق:متنازعہ جگہ کو جوڈیشل شخص نہیں مانا جا سکتا ۔کورٹ ایسا کرتی ہے تو پھر مسجد بھی جوڈیشل شخص ہے ایودھیا میں اس وقت 55سے 56مساجد ہیں جہاں مسلمان نماز پڑھ سکتے ہیں لیکن ہندو بھگوان رام کا جنم استھان نہیں بدل سکتا ۔اس پر سنی وقف بورڈ کے وکیل راجیو دھون نے کہا کہ پٹواری بتایں گے کہ ایودھیا میں کتنے مندر ہیں ؟پٹواری نے کہا کہ بڑی تعداد میں مندر ہونا جنم استھان کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے اور آبادی کے تناسب کو بھی دیکھنا چاہیے ۔وہیں کورٹ نے پٹواری سے حدبندی کے قانون ،مناسب قبضے اصول سمیت تمام قانونی معاملوں پر سوال اُٹھاتے ہوئے پوچھا کہ 2.77ایکڑ متنازعہ زمین سے مسلمانوں کا قبضہ کیسے ہٹایا جائے ؟بدھ کے روزسپریم کورٹ میں اس معاملے کی سماعت شروع ہوتے ہی چیف جسٹس رنجن گگوئی نے بحث کی ڈیٹ لائن طے کر دی ۔اورکہا کہ اب کوئی بیچ میں ٹوکا ٹاکی نہیں کرئے گا اور بحث شام پانچ بجے ختم ہو جائے گی ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں