تین طلاق کی منمانی دقیانوسی روائت سے نجات !
طلاق بد عت یعنی تین طلاق سے متعلق شادی تحفظ بل 2089کے راجیہ سبھا سے پاس کے بعد اس منمانی دقیانوسی روایت کا خاتمے سے مسلم خواتین کو نجا ت کار استہ حاصل ہوگیا ہے یہ ایک تاریخی قدم بھارت جیسے ملک میں جہاں سیاسی پارٹیوں کی بڑی پریشانی ووٹ بینک ہوتی ہے وہاں ایک فرقہ کے بڑے طبقے کی مخالفت کو برداشت کرتے ہوئے ایسے ترقی پسند انصاف پر مبنی قانون بنانے کا کچھ برس پہلے تصور تک نہیں کیا جاسکتا تھا ۔یہی دیش ہے جہاں ایک بوڑھی خاتون شاہ بانو کو سپریم کورٹ کے ذریعہ دیئے گئے گذرا بتھے کے حکم کو پارلیمنٹ نے ایک فرقہ دباو ¿ میں آکر پلٹ دی تھا ۔دوبرس پہلے سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں صاف کردیا تھا ایک ساتھ تین طلاق غیر اسلامی ،غیر قانو نی اور آئین کے منافی ہے یعنی اب ایک ساتھ تین طلاق کہنے پر نہیں ہوگی ۔اس کے باوجود تین طلاق ہوتی رہی ہیں راجیہ سبھا میں بل پاس ہونے کے بعد بھارت میں بھی طلاق پر پابندی لگ گئی ہے دنیا کے 19اسلامی ملکوں میں پہلے سے ہی ممنوع ہے ۔مصر دنیا کا ایسا پہلا ملک ہے جہاں طلاق سال 1929میں مسلم جج صاحبان کی بنچ نے اتفاق رائے سے تین طلاق کو غیر آئین قرار دیا تھا ۔مصر کی نظیر کو اپناتے ہوئے سوڈان کی عدالت بھی اپنے ملک میں تین طلاق پر پابندی لگائی ہوئی ہے ۔پاکستان میں 1956سے ہی تین طلاق پر پابندی عائد ہیں اس کے بعد بنگلہ دیش نے بھی آئین میں ترمیم کر فوری طور پر تین طلا ق پر پابندی لگادی تھی ۔عراق نے 1959میں طلاق پر پابندی لگاکر دنیا کا پہلا دیش بنا تھا وہاں کی شرعی عدالت کے قوانین کو سرکاری عدالت کے قوانین کے ساتھ ردوبدل کرکے تین طلاق کی روایت کو ختم کیا ۔شام میں قریب 74فیصدی مسلم آبادی ہے وہاں تین طلاق کے فائدے کو اس طرح سے تیار کیا گیا ہے کہ کوئی بھی مرد آسانی سے بیوی سے الگ نہیں ہوسکتا ۔ملائشیا اور انڈونیشیا:ملائشیانے اگر کسی شوہر کو طلاق لینی ہے تو اسے عدالت میں اپیل دائر کرنی ہوتی ہے ۔یہاں عدالت کے باہر طلاق کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ترکی میں طلاق تبھی ہوسکتی ہے جب شادی کا رجسٹریشن دفتر میں کرایا گیا ہو پھر طلاق کی کوئی کارروائی سول عدالت میں ہوگی شام ،یردن ،الجزائر ایران مراقش ،قطر ،اور سعودی عرب ومتحدہ عرب امارات میں بھی فورطور پر تین طلاق پر پابندی ہے ۔میں نے ان ملکوں کا اس لئے حوالہ دیا کہ بھارت اگر تین طلاق کو اپنے موجودہ خاکے میں پالن کررہاہے تو وہ ایسا کرنے والا پہلا دیش نہیں ہے بیشک اس میںکوئی شبہ نہیں کہ بھارت سرکا رنے نیا قانون لاکر تاریخی او رہمت والا کام کیا ہے ۔ اس نیا قانون کے کچھ تقاضوں کو لیکر مسلمانوں کا ایک طبقہ اور کچھ سیاسی پارٹیاں اس کی کھل کر مخالفت کررہی ہیں راجیہ سبھا کے ذریعہ پاس قانون میں تین طلاق کو جرم بنانے کی سہولت پر محض ایک غیر معمولی سوال کے چاروں طرف گھومتی نظر آئی ۔جب شادی ایک سماجی معاہد ہے اور سپریم کورٹ پہلے ہی تین طلاق کو نامنظور کرچکا ہے تو قانون کے ذریعہ منظوری حاصل نہ ہونے پر اپنی بیوی کو طلاق دینے کی کوشش کرنے والے کو سزا دینے کی ضرورت کیا ہے ؟اب یہ بل باقاعدہ قانون بن چکاہے بیوی کو ایک بار میں طلاق دینا قابل جرم بن چکا ہے اس کے لئے تین سال کی جیل کی سزا اور جرمانہ بھی ہوسکتا ہے قانون سے کیا واقعی مسلم خواتین کو راحت ملے گی یا شوہر کا جیل جانا اس کے لئے بھی مشکلوں کا سبب بنے گا ؟قومی خواتین کمیشن کی چیئر پرسن ریکھا شرمانے نیا قانون کا خیرم مقد کیا ہے اور مسلم خواتین کافی عرصے سے اس کا انتظار کرہی تھی ۔اس تین طلاق کی وجہ سے مسلم عورتوں کو ناجانے کیا کیا برداشت کرنا پڑ تا تھا ۔منٹوں میں گھر سے باہر ہونا پڑتا تھا سرکار کا نیا قانون ایک تاریخی قدم ہے جو مسلم خواتین کے ساتھ ہونے والی انصافی کو روکے گا ۔اقلیتی خاتون رضاکار کا کہناہے کہ مجھے نہیں لگتا کہ اس قانو ن پرکوئی مطلب بھی ہے سپریم کورٹ نے تین طلاق کو غیر آئین قرار دیاتھا جس لحاظ سے قانو ن میں کوئی جواز نہیں ہے او راسے طلاق کو ایک جرم بنائے جانے کا بھی کوئی مقصد سمجھ میں نہیں آتا اگر شوہر کو جیل بھیجا گیا تو بیوی اور بچوں کی دیکھ بھال کون کرےں گا ؟کیسے ثابت ہوتاہے تین طلاق مسلمان عورتوںکا سب سے بڑااشوہے ؟ دوسرے لفظوں میں ایک ظالم مسلم شوہر اپنی بیوی کو چھوڑنا چاہتاہے تو وہ طلاق دیے گا ہی ہندو سکھ عیسائی جیسے بودھ سکھ کی طرح کرتے ہیں اسے سسرال سے باہر نکال دیں وہ اس سے گالی گلوج بھی کرسکتا ہے او راسے بتا بھی سکتا ہے کہ ازدواجی رشتہ ختم ہوگیا ہے اور اس سے کسی مالی مدد کی امید نہیں کرنی چاہئے جب تک کہ وہ اردوکے تین طلاق کو ناجائز نہیں کہتا تب تک کوئی بھی جیل کی سزا بھگنے سے بچ جائے گا ۔اس طرح کا قانون ایک ہندو شوہر کیلئے ہے جو اپنی بیوی کو ایک بغیر طلاق دیئے کہتا ہے کہ یہ شادی ختم ہوگئی ہے اب باہر نکلو اگر اس کے دل میں مذا ق اڑا نے کا خیا ل ہے تو وہ ایک غیر مسلم کی شکل میں اسے دروازے سے باہر نکالتے ہوئے طلاق طلاق طلاق کہہ کر طعنہ مار سکتا ہے ۔کچھ مخالفین کا خیال ہے کہ اس قانون کا سیدھا نشانہ مسلم مرد ہے قانون سے مسلم خواتین کی کوئی بھلا ئی شاید نہ ہو شادی اور طلاق سماجی معاملے میں ہیں بھارت میں پہلی بار ان معاملوں میں باقاعدہ سزا کا اعلان کیوں ہوا ہے ۔سماجی دقیانوسی روایت کو نہیں بدلا جاسکتا اس لئے ضروری ہے سماجی نظریہ بدلے ۔موجودہ وقت میں جب مسلمان فرقہ پہلے سے ہی ڈرا ہوا ہے اوردوسرے درجہ شہری جیسا محسوس کررہاہے آج دیش میں کسی نا کسی دن ہجومی مار پیٹ کے واقعات پڑھنے سننے کو مل رہے ہیں تو ایسے میں سرکار کواچانک مسلم خواتین کی فکر کیوں ستانے لگی ؟وزیر اعظم نریند رمودی نے تین طلاق بل عورتوںکو بااختیار بنانے کی سمت میں ایک بہت بڑا قدم بتایا ہے خوش آمدی کے نام پر دیش کی کروڑوں ماں بہنوں کو انے حق سے محروم رکھنے کا پاپ کیا ہے مجھے اس بات کا فخر ہے کہ مسلم خواتین کو ان کا حق دینے کا فخر ہماری حکومت کو حاصل ہوا ہے مودی نے اس بل کو تاریخی قرار دیا اور صدیوں سے چلی آرہی روایت سے متاثرہ مسلم خواتین کو انصاف ملا ہے ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں