آڈ ۔ ایون اسکیم کا مستقبل

راجدھانی میں تجربے کے طور پر آزمائے جارہے آڈ۔ ایوان نمبر سسٹم میں مداخلت سے پیر کے روزدہلی ہائی کورٹ نے انکار کردیا ہے۔عدالت ہذا نے کہا کہ یہ ماہرین کی رائے لیکر اسکیم بنائی گئی ہے، اس کے ذریعے سے دیکھا جاناچاہئے کہ آلودگی میں کمی آتی ہے یا نہیں۔ ایسے میں اس میں مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ چیف جسٹس جے۔ روہنی اور جسٹس جینت ناتھ کی بنچ نے اپنے 12 صفحات پر مشتمل آڈر میں کہا ہے کہ ہم تب تک اس میں دخل نہیں دے سکتے جب تک پالیسی آئین یا قانون کے خلاف نہ ہو۔ آڈ۔ ایون اسکیم کچھ لوگوں کے لئے پریشانی والی ہوسکتی ہے لیکن کورٹ اس بات کے لئے دخل نہیں دے سکتی کہ پالیسی کیسی ہے یا اس سے بہتر کوئی اور پالیسی ہوسکتی تھی یا نہیں۔ حالانکہ عدالت نے دہلی حکومت سے کہا ہے کہ عرضی میں جو سوال اٹھائے گئے ہیں ان ایشوز پر غور کیا جائے۔ مستقبل میں اس طرح کی اسکیم لانے سے پہلے ان سوالوں پر بھی غور کریں۔دہلی سرکار کے وزیر ٹرانسپورٹ گوپال رائے نے کہا ہے کہ یہ اسکیم دہلی والوں کے مفاد میں ہے اور 15 جنوری تک ٹرائل کے بعد ہر ڈیٹا کا تجزیہ کیا جائے گا اس کے بعد ہی اسکیم پر آگے فیصلہ لیا جائے گا۔ یہ اسکیم دہلی میں آلودگی دور کرنے میں تو اتنی کامیاب نہیں رہی لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ اس اسکیم سے سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد میں کمی آئی ہے اور چکہ جام سے تھوڑی راحت ضرور ملی ہے۔ اس اسکیم کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ جام میں پھنسی گاڑیوں کی فضول پیٹرول اور ڈیزل خرچ میں بھی کمی آئی ہے۔ پیٹرول پم مالکان کا کہنا ہے کہ پیٹرول اور ڈیزل کی کھپت میں 25 فیصدی کمی آئی ہے۔ جہاں تک آلودی کا سوال ہے اس میں کمی آنے کی جگہ کئی مقامات پر الٹا اضافہ ہوا ہے۔ گاڑیوں سے زیادہ آلودگی موسم پر منحصر ہے۔ دھواں نکلنے ، درجہ حرارت بڑھنے سے آلودگی میں بھاری کمی آئی ہے۔ محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ زیادہ سے زیادہ اور کم از کم درجہ حرارت میں عام سے زیادہ درج ہوا ہے۔ اور آنے والے دنوں میں درجہ حرارت میں بہت کمی آنے کا اندیشہ نہیں ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ14-15 جنوری کو جزوی طور پر دہلی میں بادل چھائے رہنے و ہلکی بوچھاریں پڑنے کا امکان ہے۔ آلودگی کے خلاف دہلی سرکار 15 جنوری کے بعد بھی یہ اسکیم جاری رکھ سکتی ہے۔ اس بار لڑائی میں آس پاس کی ریاستوں کو بھی شامل کرنا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس کے لئے آب و ہوا آلودگی ایکٹ کی دفعہ17(1) کا سہارا لیا جائے گا۔ اس میں پی ایم10 اور ایم ایم2.5 کو کم کرنے کیلئے گائڈ لائنس جاری کی گئی ہیں۔ سرکاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آلودگی کی خاص وجہ گاڑیاں کچرہ جلانا، پھول اور ذرات اور راستوں پر تعمیراتی سامان اور صنعتوں سے نکلنے والی آلودگی ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے احکامات کے بعد دہلی سرکار کی طرف سے دوسری ریاستوں کو پہل کرنے کیلئے بھی کہا گیا ہے۔ دہلی میں آلودگی بڑھی ہے۔ دہلی میں پی ایم2.5 کی مقدار399 رہی۔ دہلی کے آنند وہار میں پی ایم 2.5 کی مقدار 390 رہی جبکہ پی ایم 10 کی مقدار 499 تھی۔مندر مارگ میں یہ اعدادو شمار 419 اور 436۔ پنجابی باغ میں 184 اور 276 ۔ آر کے پورم میں 203 اور 216 رہی۔ بیشک اس آڈ ۔ایون اسکیم کی کامیابی کا دہلی سرکار کریڈٹ لے لیکن جہاں تک آلودگی کا سوال ہے وہ کم نہیں ہوئی ہے۔ ہاں اس اسکیم کے کئی فائدے ضرور نظر آئے جن کا میں نے اوپر تذکرہ کیا ہے۔ دہلی میں کیجریوال سرکار کو اسکیم میں جزوی طور پر کامیابی ضرور ملی ہے۔ سیاسی فائدہ ضرور ہوگا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ15 جنوری کے بعد کیجریوال سرکار جنتا کی پریشانیوں اور تجاویز کا خیال کرتے ہوئے پختہ اسکیم لائے گی لیکن زیادہ کریڈٹ کو دہلی کے شہریوں کو جاتا ہے جنہوں نے کم سے کم قوت ارادی تو ضرور دکھائی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!