جموں و کشمیر میں سیاسی داؤ پیچ کا دور
امید تو یہ تھی کہ ایتوار تک جموں و کشمیر میں نئی حکومت کو لیکر تصویر صاف ہوجائے گی لیکن اب ڈر ہے کہیں پھر سے صوبے میں عدم استحکام کا دور نہ شروع ہوجائے۔ خاص کر آج کے حالات میں جب سرحد پار سے مل رہے غیر سنجیدہ اشاروں کی وجہ سے جموں و کشمیر میں کسی طرح عدم استحکام پیدا کرنے والے منظر کو بلاوا دینے جیسے ہیں۔ نئی سرکار کی تشکیل کے لئے کسی بھی سیاسی پارٹی کے آگے نہ آنے سے ریاست میں صدر راج لگانا پڑا ہے۔ امید تو یہ تھی کہ مفتی محمد سعید کے انتقال کے بعد ان کی جگہ نئی وزیر اعلی ان کی بیٹی محبوبہ مفتی بن جائیں گی لیکن فی الحال اس میں تھوڑی اڑچن آگئی ہے۔ اپنے والد کے انتقال کے غم میں ڈوبی بیٹی محبوبہ نے ابھی تک بھاجپا کے ساتھ سرکار کے قیام کے لئے بات چیت تک شروع نہیں کی ہے۔ محبوبہ نے اتوار کی شام کو بلائی اپنی پارٹی کی میٹنگ میں بھی اس اشو پر کوئی تبادلہ خیالات نہیں کئے۔ وہ صرف تعزیتی میٹنگ تک ہی محدود رہی۔ وزیر اعلی مفتی محمد سعید کے انتقال کے بعد پی ڈی پی اور بھاجپا میں چل رہی کھینچ تان دیش کے مفاد میں نہیں ہے۔ محبوبہ خود سرکار کے قیام میں دیری کررہی ہیں کیا اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اپنے والد کی موت کے سبب وہ صدمے میں ہیں؟ لیکن اس درمیان ان سے سونیا گاندھی اور نتن گڈکری کی الگ الگ ملاقاتوں کو سرکار کی تشکیل میں ہورہی تاخیر سے بھی جوڑا جاسکتا ہے۔ کہنے کو تو پی ڈی پی نے سرکاری طور سے یہ بھی کہا ہے کہ بھاجپا سے اس کا اتحاد قائم ہے لیکن پارٹی کے ایک سینئر لیڈر مظفر حسین کا یہ کہنا دلچسپ ہے کہ متبادل کھلے ہیں اور سیاست میں حالات کبھی بھی بدل سکتے ہیں۔ کیا ہم ان کے بیان سے یہ سمجھیں کہ جموں وکشمیر میں نئے تجزیئے بننے کے آثار ہیں۔ ویسے ایسے لوگوں کی بھی بھاجپا میں کمی نہیں جو دبی زبان میں یہ کہتے ہیں کہ جموں و کشمیر میں پی ڈی پی ۔بھاجپا اتحاد ناکام ہوگیا ہے اور اس سے بھاجپا کو بہت نقصان ہوا ہے خاص کر جموں خطے میں۔ اس لئے بہتر ہوگا کہ بھاجپا اپوزیشن میں بیٹھے اور محبوبہ کو کانگریس اور دیگر پارٹیوں کے ساتھ سرکار بنانے دے۔ یہ تو پہلے ہی صاف تھا کہ مفتی اور محبوبہ میں فرق ہے۔ بھاجپا مفتی پر بھروسہ کرسکتی تھی لیکن محبوبہ پر نہیں؟ دراصل مفتی اور محبوبہ میں شروع سے ہی تھوڑا فرق رہا ہے۔ اس کی جھلک اب دکھائی دینے لگی ہے۔ پی ڈی پی کے ذرائع کے مطابق محبوبہ کمان سنبھالتے ہی اپنے حمایتیوں کے درمیان یہ پیغام پہنچانا چاہتی ہیں کہ پی ڈی پی اپنی شرطوں پر اتحادی سرکار چلائے گی۔ یہ پیغام پی ڈی پی کے ان حمایتیوں کے لئے ہے جو کٹر پسند بھی رہے ہیں اور بھاجپا سے اتحاد کے خلاف بھی۔ ممکن ہے اسی حکمت عملی کے تحت بھاجپا کوٹے کی کچھ اہم وزارتیں محبوبہ اپنے پاس رکھنا چاہتی ہیں۔ بتاتا ہیں کہ اس سے اندیشہ ہے کہ پچھلے دنوں میں ان کی پارٹی کی پکڑ تھوڑی کمزور ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مفتی کو سپرد کارکرنے کے وقت ان کے حمایتیوں کی تعداد اتنی نہیں تھی جتنی محبوبہ کو توقع رہی ہوگی۔ اس درمیان بھاجپا نے صاف کردیا ہے کہ اتحادی سرکار اپنی شرطوں پر چلائے گی۔جموں و کشمیر کی ذمہ داری دیکھ رہے بھاجپا سیکریٹری جنرل رام مادھو نے کہا کہ حکومت کم از کم مشترکہ پروگرام کی بنیاد پر بنی تھی ہم اسی سے بندھے رہنا ہیں۔ اب پی ڈی پی کو پہل کرنی ہوگی۔ انہیں آگے آنا ہوگا۔ لگتا ہے کہ فی الحال دونوں طرف سے اپنی اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ ریاست کی 87 ممبری اسمبلی میں پی ڈی پی کے 28 بھاجپا کے 25، کانگریس کے12، نیشنل کانفرنس کے15 ممبر ہیں ۔ اگر کانگریس سے ہاتھ ملا کر اکثریت ممکن ہوتی تو شاید پی ڈی پی وہی کرتی۔ محبوبہ نے اپنی سیاسی پارٹی 1996ء میں کانگریس سے ہی شروع کی تھی۔ پہلی بار وہ کانگریس کے ہی ٹکٹ پر اسمبلی میں پہنچی تھی۔ ویسے اب وہ دور نہیں رہا کے دہلی میں جس کی سرکار اسی کے ساتھ رہنے میں فائدے والے حالات ہوں۔ ایک تو مودی سرکار کا دباؤ پہلے سے ہی گھٹا ہے اور دوسرے محبوبہ کے سیاسی مفادات بھاجپا سے میل نہیں کھاتے۔ محبوبہ کو مفتی جیسا تال میل بنا کر چلنے کی مہارت شایدحاصل نہیں ہے۔ بہرحال اس سیاسی داؤ پیچ میں خطرے کم نہیں ہیں۔ امید ہے کہ سیاسی حالات دیکھتے ہوئے نئی سرکار کی تشکیل جلد ہوجائے گی۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں