پٹھانکوٹ حملہ آوروں کو کہیں ڈرگ اسمگلروں نے پناہ تو نہیں دی

پٹھانکوٹ میں آتنک کے خلاف 100 گھنٹے سے زیادہ آپریشن تو ختم ہوگیا ہے پر یہ سوال جوں کا توں ہے کہ آخر کار بھارتیہ سرحد میں آتنکیوں کو پناہ کون دیتا ہے؟مانا جارہا ہے کہ آتنکیوں نے ڈرگ سمگلروں کے روٹ کا استعمال کیا۔ ڈرگ اور آتنک کے اس خطرناک گٹھ جوڑ کی جانچ چل رہی ہے۔ کیا پنجاب میں پھیلے نشے و ہتھیار سمگلنگ کا نیٹ ورک تو آتنکیوں کا مددگار تو نہیں بنا؟ سرحد پر ہیروئن ،حشیش کی سمگلنگ کرنے والے اسمگلروں کے تعلق پاکستانی اسمگلروں سے ہیں۔ کئی بار اسمگلر ہتھیار اور آر ڈی ایکس کی اسمگلنگ کرتے ہوئے پکڑے جاچکے ہیں۔ کئی بار پاکستانی اسمگلر بھارتیہ سرحد میں گھس پر یہاں کے اسمگلروں کے پاس رہ چکے ہیں۔ کچھ سال پہلے لگ بھگ 5 شہری سرحد پر لگی کٹیلی تار پار کر فیروز پور چھاؤنی ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے تھے۔ ان میں سے ایک کو قابو کیا گیا تھا باقی فرار ہوگئے تھے۔ خفیہ ذرائع کے مطابق اس میں حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ بھارتیہ اسمگلروں نے پٹھانکوٹ میں حملہ کرنے آئے آتنکیوں کو پناہ دی ہو۔ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ بھارت۔ پاک سرحد پر رہنے والے زیادہ تر لوگوں کے پاس پاکستانی موبائل کمپنی کے سم کارڈ ہیں۔ پنجاب پولیس کے سابق ڈی جی پی ششی کانت لمبے وقت سے ڈرگ مافیہ کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ ششی کانت نے کہا کہ جب تک ڈرگ روٹ بند نہیں ہوگا تب تک آتنکی یوں ہی آتے رہیں گی۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب میں بارڈر دو طرح کا ہے ، ایک وہ حصہ جہاں کٹیلی تاروں کی فینسنگ کی ہوئی ہے جبکہ دوسرے میں کٹیلے تار نہیں ہیں۔ یہ ندی کے کنارے والا حصہ ہے ۔جہاں کٹیلی تار ہیں وہاں خالی موٹے پائپ کے ذریعے ڈرگس اور آر ڈی ایکس بھیجا جاتا ہے جبکہ بنا تار والے بارڈر سے کشتی کے ذریعے یہ کام ہوتا ہے۔ آتنکیوں کے لئے کٹیلے تاروں والے بارڈر سے آنا مشکل ہے کیونکہ اس کے لئے سرنگ بنانی ہوگی۔ اس لئے دینا نگر اور پٹھانکوٹ دونوں معاملے میں آتنکی ندی والی سائڈ سے آئے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ سلیپر سیل وہاں موجود ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پنجاب گورنمنٹ کا ایک حصہ ان آرگنائزڈ ڈرگ مافیہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس میں نیتا، پولیس، بی ایس ایف سب جگہ کے لوگ شامل ہیں۔ پنجاب میں پاک کے ساتھ لگی ہوئی سرحد کے قریب 550 کلو میٹر کی سرحد میں ندیوں اور نالوں نے اسمگلروں کے لئے گھس پیٹھ آسان کردی ہے۔ چھوٹے چھوٹے نالوں ، ندیوں کی وجہ سے نہ تو یہاں پر کٹیلی تار لگائے جاسکتے ہیں اور نہ ہی پوری طرح چوکسی رکھی جاسکتی ہے۔ نشہ و ہتھیار کے اسمگلروں پر شک کی سوئی ٹھہرنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جب بھی کسی کی گرفتاری و برآمدگی ہوتی ہے تو پاک ہتھیار و سم کی برآمدگی ضرور ہوتی ہے۔ معاملے میں سکیورٹی فورسز کی غیر سنجیدگی و ملی بھگت بھی سامنے آتی ہے۔ سرحد پر اسمگلروں سے برآمد پاکستانی سم کارڈوں کی جانچ سرے نہیں چڑھ پاتی ہے۔ ذرائع کی مانیں تو گذشتہ تین سالوں میں سرحد پر برآمد 22 سم کارڈوں میں سے بی ایس ایف یا دیگر سکیورٹی فورسز نے صحیح ڈھنگ سے جانچ نہیں کی۔ بی ایس ایف سے موصول اعدادو شمار کے مطابق گذشتہ تین سالوں میں تین پاکستانی آتنکیوں اور اتنے ہی اسمگلروں کو پاکستان سے اتر پوربی سرحد پارکرنے کی کوشش کرتے ہوئے بی ایس ایف نے مار گرایا۔ 20 گھس پیٹھیوں کو زندہ پکڑا۔ اسی سال اے کے 47- سمیت 17 ہتھیار ،24 میگزین، 286 راؤنڈ گولیاں و 15 پاکستانی موبائل برآمد کئے گئے۔ساری کوششوں کے باوجود پنجاب میں سرحد پار سے ڈرگ کی اسمگلنگ بڑھتی جارہی ہے۔ اس کیلئے پنجاب سرکار بھی بار بار سرحد پر چوکسی بڑھانے کی بات مرکزی سرکار کے سامنے اٹھاتی رہی ہے۔ کیا گورداس پور کے ایس پی بلوندر سنگھ بھی اس ڈرگ ریکٹ میں شامل ہیں؟ ممکن ہے کہ انہیں یہ بتایا گیا ہو کہ ڈرگس کی سپلائی آرہی ہے اور انہوں نے ان آتنکیوں کو ڈرگ اسمگلر سمجھا ہو؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!