112 سال پرانے سوریہ مندر کے دروازے کھولنے کی یوجنا

کونارک کا سوریہ مندر بھارت کے پاس یہ دنیا کی قدیم ترین وراثت ہے۔کبھی رویندر ناتھ ٹیگور سے لکھا کونارک جہاں پتھروں کی زبان منشٹ سے سریشٹ ہے، آج کل یہ پھر سرخیوں میں ہے۔ اگر آپ مندر گئے ہوں تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ تین منڈپوں میں بٹے اس مندر کا اہم منڈپ اور ناٹے شالا تباہ ہوچکے ہیں اور اب اس کا ڈھانچہ ہی باقی ہے۔ بیچ کا حصہ، جسے جگموہن منڈپ یا سوریہ مندر کے نام سے جانا جاتا ہے، اس میں 1901ء میں چاروں طرف سے دیواریں اٹھوا کر ریت بھر دی گئی تھی۔ اب اسی ریت اور دیواروں کو ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے، تاکہ اس کے اندر کی دیواروں کی نقاشی لوگ دیکھ سکیں۔اپنی خاص فنکاری اور انجینئرنگ کے لئے دنیا بھر میں مشہور اس مندر کو سیاحوں نے ابھی تک ادھورا ہی دیکھا ہے۔ اس کے لئے ہندوستانی محکمہ آثار قدیمہ اورسی بی آر آئی (سینٹرل بلڈنگ ریسرچ انسٹیٹیوٹ رڑکی) کی ٹیم کام کررہی ہے۔ حال ہی میں سی بی آر آئی کی ٹیم نے اینڈواسکوپک کے ذریعے مندر کے اندر کی کچھ تصویریں اور ویڈیو لئے ہیں جن کی اسٹڈی کی جارہی ہے، ساتھ ہی اس کی ایک چھوٹی سی رپورٹ کی ایک کاپی اے ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر بھیجی جاچکی ہے۔ اب اس پر اے ایس آئی کو فیصلہ کرنا ہے۔ اب آگے کچھ بڑھا تو سال2016ء میں ریت ہٹانے کی کارروائی شروع کی جاسکتی ہے۔ سب سے خاص اور قدیم وراثت کی حفاظت ہے۔ مندر دوبارہ کھولنے کی کارروائی کا ابھی پہلا مرحلہ ہی پورا ہوا ہے، جس میں انڈواسکوپی کے ذریعے اسٹڈی کی جارہی ہے اس کی بنیاد پر اندر کی دیواروں کی مضبوطی، انجینئرنگ کے پیمانے اور مندر کے فاؤنڈیشن سسٹم کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ سوریہ مندر کے چیف افسر نرمل کمار مہا پاترا کے مطابق کونارک میں اوسطاً روز تقریباً10 ہزار لوگ آتے ہیں اور سیزن میں یہ تعداد بڑھ کر25 ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔ اسے مزید بڑھانے کی اسکیم پر محکمہ سیاحت اور انڈین آئل فاؤنڈیشن مختلف قدم اٹھا رہے ہیں۔ کونارک میں لائٹ اینڈ ساؤنڈ شو کی تیاری بھی ہورہی ہے۔ مندر کی تاریخ بتاتی ہے کہ کئی حملوں اور قدرتی آفات کے سبب جب مندر کے بیچ کا حصہ باقی بچا تو1901ء میں اس وقت کے گورنر جان وڈ برن نے جگموہن منڈپ کے چاروں دروازوں پر دیواریں کھڑی کروادیں اور اس میں پوری طرح سے ریت بھردیا تاکہ یہ سلامت رہے اور کسی طرح کی قدرتی آفات اسے متاثر نہ کرسکے۔ تب سے لیکر اب تک یہ اسی حالت میں ہے۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً محکمہ آثار قدیمہ نے اس کے اندر کے حصے کی اسٹڈی کرنے کی ضرورت ظاہر کی اور ریت نکالنے کیلئے یوجنا بنانے پر زوردیا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!