کیا بھاجپا کیلئے مالدہ سنجیونی بن سکتا ہے

اترپردیش سے اٹھا ایک من چاہا اشو کیا بھاجپا کیلئے سیاسی طور سے سنجیونی ثابت ہوسکتا ہے؟ اترپردیش کے سیتا پور کے ہندو مہا سبھا کے خودساختہ لیڈر کملیش تیواری نے مسلمانوں کے عقیدت کے مرکز حضرت محمدؐ پراعتراض آمیز تبصرہ کیا کردیا، یوپی سمیت کئی ریاستوں میں سیاست گرم ہوگئی۔ بہار، پورنیہ اور مغربی بنگال(مالدہ) میں وسیع تشدد ہوا۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی نے تو مالدہ واردات کو فرقہ وارانہ تشدد ماننے سے انکار کردیا اور اسے بی ایس ایف اور مقامی لوگوں کا جھگڑا تک بتادیا۔ مغربی بنگال میں تین مہینے بعد اسمبلی چناؤ ہونے ہیں۔ ٹی وی اسٹار رہیں بھاجپا نیتا روپا گانگولی کی مانیں تو ریاست میں اس طرح کے عناصر کو ممتا حکومت کی پہلے سے ہی سرپرستی ملتی رہی ہے۔ مالدہ تشدد کٹر پسند طاقتوں کے تئیں نرمی کے سبب ہوا۔ حکومت اور مقامی انتظامیہ کا درپردہ طور پر ٹال مٹول والا رویہ ان کے حوصلے کو بڑھاتا ہے۔ بھاجپا اس کے خلاف سڑکوں پر اتر رہی ہے۔ مالدہ میں واقع کالیاچک علاقے میں 3 جنوری کو مسلم مظاہرے ہوئے اور ان پرتشدد مظاہروں اورآگ زنی کے واقعات کا جائزہ لینے پہنچی بھاجپا کی مرکزی ٹیم کو وہاں سے بیرنگ لوٹنا پڑا۔ دارجلنگ سے بھاجپا ایم پی ایس۔ ایس اہلووالیہ کی رہنمائی میں تین نفری ٹیم جب پیر کو صبح مالدہ اسٹیشن پہنچی تو نیتاؤں کو اسٹیشن سے باہر نہیں نکلنے دیا گیا۔ اس کے بعد اہلووالیہ اور ایم پی بی ڈی رام اور بھوپندر ریادو کو کولکتہ لوٹنا پڑا۔ اس پر حیرت نہیں کہ مالدہ میں ہوئے تشدد کی جانچ پڑتال کیلئے مغربی بنگال سرکار نے بھاجپا و دیگر حریف پارٹیوں کے لیڈروں کو موقع پر نہیں جانے دیا۔ ممتا بنرجی کے انتظامیہ کی طرف سے ایسی کسی اڑنگے بازی کا اندیشہ تھا۔ یہ اندیشہ تبھی بڑھ گیا تھا جب ممتا بنرجی نے کہا تھا کہ کالیاچک تشدد فرقہ وارانہ نہیں تھا اور حریف پارٹیاں بے وجہ اسے طول دے رہی ہیں۔اگر یہ تشدد فرقہ وارانہ نہیں تھا تو تشدد پر آمادہ مسلم انجمنوں اور ان کے ورکروں کی بھیڑ نے تھانے پر حملہ بولنے کے دوران ہندوؤں کی دوکانیں کیوں جلائیں؟ کیا وجہ ہے کہ تشدد کے شکار ہوئے ہندو کالیا چک چھوڑ کر اپنے رشتے داروں کے یہاں پناہ لیے پر مجبور ہوئے اور فی الحال لوٹنے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ محض اتفاقی واقعہ ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ کی بھیڑ تھانے پر حملہ بول دے اور اس دوران بی ایس ایم کی ایک گاڑی سمیت دو درجن گاڑیوں کو آگ کے حوالے کردیں۔ صاف ہے کہ ریاستی حکومت اور ان کا انتظامیہ لیپا پوتی کی کوشش کررہا ہے۔ اس کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ ایک لاکھ سے زیادہ کی بھیڑ بغیر اجازت کیسے اکھٹی ہوگئی؟ ریاستی حکومت اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتی کہ جب میڈیا کے ایک حصے کے دباؤ میں آگ زنی اور توڑ پھوڑ کرنے والے کچھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا تو پولیس کو کیوں نشانہ بنایا گیا؟ بتاتے چلیں کہ لوک سبھا چناؤ میں مودی لہر میں بھاجپا کو حالانکہ مغربی بنگال سے دو سیٹیں ہیں ملی تھیں لیکن اس کا ووٹ فیصد 17 فیصدی تک بڑھ گیاتھا لیکن حالیہ میونسپل کارپوریشن سے لیکر جتنے بلدیاتی چناؤ ہوئے بھاجپا کو بری طرح ہارنا پڑا۔ اب وہ مالدہ کے سہارے مغربی بنگال اسمبلی چناؤ میں لیڈ لینے کے فراق میں ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے ریاستی بھاجپا کی مانگ پر ہی صدر امت شاہ نے دارجلنگ کے بھاجپا ایم پی ایس ۔ ایس اہلووالیہ کی رہنمائی میں مالدہ ایک نمائندہ وفد بھیجا جسے بیرنگ واپس کردیا گیا۔ مانا جارہا ہے کہ بھاجپا اسمبلی چناؤ میں اس اشو کو زور شور سے آگے بڑھائے گی۔دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ اشو مغربی بنگال میں بھاجپا کے لئے سنجیونی کا کام کرسکتا ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!