سپریم کورٹ کے فیصلے کا کیا اثر ہوگا؟

جو یہ امید کر رہے تھے کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی درجہ کو لیکر طویل عرصے سے چلے آ رہے تنازعہ پر ہاں یا نہ میں صاف جواب مل جائیگا۔انہیں سپریم کورٹ کے جمعہ کو آئے فیصلے سے تھوڑی راحت بھی ملی ہوگی اور تھوڑی مایوسی بھی لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے ان اہمیت اس معنیٰ میں یہ ہے کے اس معاملے کو دیکھنے سمجھنے کے طریقوں میں رہی خامیوں پر روشنی ڈالتا اور انہیں دور کرتا ہے سپریم کورٹ کی آئینی بینچ نے جمعہ کو 1967 کے اپنے فیصلے کو پلٹ دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسے سینٹرل یونیورسٹی کواقلیتی ادارہ کا درجہ حاصل نہیں ہو سکتا تھا۔7 ججو کی آئینی بینچ کے اکثریتی فیصلے میں ایس عزیز باشا بنام مرکزی حکومت معاملے کو پلٹا ہے ۔حالانکہ اے ایم یو کو اقلیتی ادارے کا درجہ حاصل ہوگا یا نہیں اس کا فیصلہ بڑی عدالت کی ایک ریگولر بنچ کرے گی۔چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ جسٹس سنجیو کھنہ ،سوریہ کانت،جے بی پاردیوالا سمیت 7 ججوں کی بنچ میں شامل تھے ۔اس قانونی تنازعہ کی پیچیدگی کو اس پہلو سے سمجھا جا سکتا ہے کی یہ آدھی سدی سے بھی زیادہ پرانا معاملہ ہے اس کی شروعات 1967 میں عزیز باشا شیخ سے آئے سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے مانی جاتی ہے جس میں کہا گیا تھا کے اے ایم یو اقلیتی ادارہ نہیں ہے کیوں کے یہ ایک قانون اے ایم یو ایکٹ نے دیا ہے کے ذریعہ وجود میں آیا تھا عدالت کے اس فیصلے کو پلٹتے ہوئے کچھ پیمانے بھی مقرر کئے گئے ہیں؟اب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی درجہ پر اگلی سماعت میں فیصلہ انہیں تجروں کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا جائےگا ۔پورے طور پر دلیل یہ ہے کے کی ادارے کا قیام کس نے کیا کیا ادارے کا کردار اقلیتی ہے اور کیا یہ اقلیتوں کے مفاد میں کام کرتا ہے ؟ اقلیتی درجہ کا سوال یونیورسٹی انتظامیہ کے مختلف اہم ترین پہلوﺅ سے جڑا ہے ،یہاں لاگو ہونے والا ریزویشن سسٹم بھی فیصلہ کن اثر ڈالنے والا ہے یونیورسٹی میں مسلمانوں کو کتنا ریزویشن ملےگا اور ایس سی ،ایس ٹی ،او بی سی ان کو ریزرویشن ملےگا یا نہیں یہ بھی اس سوال کے جواب میں منحصر کرتا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی وجود کی بحالی بے شک ہو گئی ہے حالانکہ ابھی 3 نفری بنچ نے اس وجود سے جڑے تقاضے طے کرنے ہوں گے اے ایم یو ،علیگ برادری اسے اپنی بڑی جیت اور راستہ کھلنا مان رہے ہیں اس فیصلے کے ساتھ ہی سوال کھڑے ہو رہا ہے کے اب اے ایم یو کو چلانے اور سسٹم میں کیا تبدیلی ہو سکیں گی جس پر ایک ہی جواب ہے کے ابھی کے حکم کے قانونی پہلوﺅ کا جائزہ اور باریکیوں پر قانونی رائے لینے کے بعد ہی کچھ کہا جائے گا اور پھر طے ہوگی اے ایم یو کے چلانے میں اگر غور کریں تو اب تک اے ایم یو اپنے ایکٹ ،یو جی سی اور وزارت تعلیم کے قوائد سے چلتی ہے اس کے تحت اے ایم یو میں 50 فیصدی طلبا کو عارضی طور پر کوٹ کا فائدہ ملتا ہے حالانکہ اگر اقلیتی کریکٹر ہٹتا ہے تو ریزرویشن سسٹم لاگو ہوگا جانکار کہتے ہیں کے اب حالات جو ں کے توں رہیں گے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!