وہ جج جنہوں نے اپنے پتا کے فیصلے کو ہی پلٹ دیا !

یہ انتہائی خوشی کا موضوع ہم سب کے لئے ہے کہ ہمارے کالج کے ہونہار طالب علم شری دھننجے یشونت چندر چوڑ سپریم کورٹ کے اگلے چیف جسٹس بننے جارہے ہیں میں دہلی کے نامور سینٹ اسٹیفن کالج کی بات کر رہا ہوں ۔جسٹس چندرچوڑ بھی اسی کالج کے طالب علم رہے ہیں میں بھی وہیں کا ہوں ۔جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ دیش کے اگلے چیف جسٹس ہوں گے موجودہ چیف جسٹس یویوللت نے سپریم کورٹ کے سب سے سینئر جج چندر چوڑ کا نام مرکزی سرکار کو بھیجا ہے ۔ سرکار سفارش منظور کرتی ہے تو دیش کے 50ویں سی جے آئی جسٹس چندرچوڑ 9نومبر کو حلف لیںگے ۔موجودہ چیف جسٹس آف انڈیا یو یو للت کی 74روزہ میعاد 8نومبر کو ختم ہوجائے گی۔ جسٹس چندر چوڑ کہتے ہیں کہ عدالتوں کا کام قانونی جواب دہی کے ساتھ مظالم کو دور کرنا ہے ۔ ان کے فیصلے جتنے مضبوط دلائل پر مبنی ہوتے ہیں اتنی ہی بیباکی کے ساتھ فیصلوں میںعدم رضامندی بھی جتاتے ہیں ۔ کئی فیصلوں میں پوری بنچ سے الگ رائے رکھتے ہوئے وہ نا اتفاقی کو جمہوریت کا سیفٹی کوچھ قرار دیتے ہیں ۔ منصفانہ اور شفافیت کو عدلیہ نظام کیلئے اہم مانتے ہوئے وہ اپنے والد سابق چیف جسٹس وائی وی چندرچوڑ کے نظریات و پرائیویسی پر دیئے گئے فیصلوں تک کو پلٹ چکے ہیں۔وہیںحال ہی میں عدالتی کاروائی کے بارے میں جاننے کو شہریوں کا حق بتاتے ہوئے عدالت کی کاروائی کا سیدھا ٹیلی کاسٹ شروع کیا ۔ سپریم کورٹ نے پرائیویسی کے حق پر تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے اسے بنیادی حق بتایا ۔9ججوں کی سپریم کورٹ کی بنچ نے اتفاق رائے سے فیصلہ سنایا اس فیصلے کو لیکر جس ایک جج کی بات بہت سرخیوں میں چھائی ان کا نام ہے جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اس فیصلے کے ساتھ ہی انہوں نے 41سال پہلے جسٹس وائی وائی چندر چوڑ کے فیصلے سے الگ دیا تھا ۔انہوں نے لکھا:پرائیویسی کا حق کی آئین میں تشریح ہے اور یہ آرٹیکل 21کے تحت زندگی اور شخصی آزادی کی گارنٹی سے نکل کر آتا ہے ۔41سال کے وقفہ میں آیا یہ فیصلہ بدلتے وقت آئین کی بدلتی تشریح کی ایک پختہ مثال ہے ۔ جسٹس چندر چوڑ پچھلے برسوں میں کئی اہم فیصلوں کو لیکر سرخیوں میں چھائے رہے ہیں ان کے تبصرے اور تشریحات نہ صرف قانونی گلیاروںمیں بلکہ اخباروں اور سوشل میڈیا پر بحث کا موضوع بنتی رہی ہیں۔ کئی بار ان کا نام سوشل میں میڈیا میں ٹرینڈ ہو چکا ہے ۔ سیملنگ رشتوں کو جرم بتانے والی آئی پی سی کی دفعہ 377میں انہوں نے میگھالیہ کی وراثت بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ماضی کے ناانصافی کو ٹھیک نہیں کیا جا سکا لیکن مستقبل کی سمت تو طے کی جا سکتی ہے۔ وہیںہادیہ معاملے میں برتاو¿ کو غیر مجرمانہ قرار دیتے ہوئے جنسی من مرضی کو شادی کے تحت خاتون کی خود مختاری کا مو ضوع بتایا تھا۔سبری مالا معاملے میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ رواجوں کی سرپرستی اور ان کے استعمال میں آئین کی خود مختاریت چھین لی ۔جسٹس چندر چوڑ کی اسکولی تعلیم ممبئی اور دہلی میں ہوئی اور انہوں نے دہلی کے سینٹ اسٹیفن کالج سے گریجوایشن کیا اور 1982میں دہلی یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا اور یہاں وہ امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی گئے جہاں انہوں نے پہلے ایل ایل ایم کیا اور 1986میں جوڈیشل سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!