ایودھیا فیصلے پر نظر پٹیشن؟
ایوھیا معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کے ذریعہ نظرثانی پٹیشن دائر کرنے کے فیصلے پر ہمیں کوئی حیرانی نہیں ہوئی ،بورڈ کی ایگزیکٹیو میٹنگ میں مسجد کے لئے پانچ ایکڑ زمین بھی نہ لینے کا فیصلہ ہوا ،بورڈ کے سیکریٹری ظفر یاب زیلانی نے کہا کہ نظر ثانی عرضی کا فیصلہ کسی سیاست کے چلتے نہیں لیا گیا ہے ۔بلکہ یہ آئین میں حاصل ہمارا حق ہے ۔بورڈ نے نظر ثانی پٹیشن کے لئے یہ بنیادیں بتایں ،سپریم کورٹ نے مانا ہے کہ بابر کے سپہ سالار میر باقی نے مسجد کی تعمیر کرائی ،1857سے 1949تک مسجد اور اندرونی حصوں پر مسلمانوں کا قبضہ مانا ،کورٹ نے مانا بابری مسجد میں آخری نماز 16دسمبر 1949کو پڑھی گئی ،22,23دسمبر 1949کی رات میں مورتیاں رکھی گئیں ،ان کا وہ وقار نہیں ہوا ،لہذا دیوتا نہیں مانا جا سکتا ۔گنبد کے نیچے پوجا کی بات نہیں کہی گئی پھر زمین رام للا کے حق میں کیوں دی گئی ؟عدالت نے رام جنم بھومی کو فریق نہیں مانا پھر اس کی بنیاد پر فیصلہ کیوں دیا گیا ۔عدالت نے کہا مسجد ڈھانا غلط تھا اس کے باوجود مندر کے لئے فیصلہ کیوں دیا ۔عدالت نے کہا ہندو سینکڑوں سال سے پوجا کرتے آرہے ہیں اس لئے زمین رام للا کو دی جاتی ہے ۔جبکہ مسلمان بھی عبارت کرتے رہے ہیں ۔وقف ایکٹ کو نظر انداز کیا گیا ۔مسجد کی زمین بدلی نہیں جا سکتی ،کورٹ نے مانا کہ کسی مندر کو توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی تھی یہ دکھ کی بات ہے کہ جو مسلم لیڈر فیصلے سے پہلے کہہ رہے تھے کہ جو فیصلہ آئے گا اسے قبول کریں گے اب وہی لیڈر اسے تسلیم نہ کرنے کے لئے طرح طرح کے بہانے گھڑنے لگے ہیں ۔ہمارا خیال ہے کہ بے شک یہ مسجد مسلم لیڈر نظر ثانی عرضی داخل کرنا چاہتے ہوں لیکن اس عرضی کے کورٹ میں قبول ہونے کی امید بہت کم ہے ۔واقف کاروں کا کہنا ہے کہ فیصلہ اتفاق رائے سے ہے جس میں احتجاج یا ناراضگی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس لئے نظر پٹیشن کا مستر د ہونا طے ہے ۔بلا شبہ کسی بھی معاملے میں نظر ثانی عرضی دائر کرنے کا سبھی کو حق ہے ۔اگر ایوھیا معاملے میں فریقین اس حق کا استعمال کرنا چاہتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ایک تو اہم فریق اقبال انصاری فیصلے کو چیلنچ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اور دوسرے جو لوگ ان سے الگ راستے پر چل رہے ہیں وہ اچھی طرح جان رہے ہیں کہ اب کچھ حاصل ہونے والا نہیں اس کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ ایودھیا معاملے میں پانچ نفری آئینی بنچ نے اپنا فیصلہ اتفاق رائے سے سنایا آخر یہ جانتے ہوئے بھی ایودھیا فیصلے کو چیلنج کرنے کا مطلب ہے کہ اس سے کچھ ہاتھ لگنے والا نہیں ہے ۔یہ صرف وقت کی برباری ہی نہیں بلکہ ٹکراﺅ کے راستے پر جان بوجھ کر چلنے کی کوشش بھی ہے اگر کوئی نظر ثانی پٹیشن دائر ہوتی ہے تو اسے فیصلہ دینے والے جج ہی سنیں گے اس میں ایک جج کے بدلنے کی امید ہے کیونکہ فیصلہ دینے والی بنچ کے چیف جسٹس رنجن گگوئی 17نومبر کو ریٹائر ہو گئے ان کی جگہ نئے چیف جسٹس بوبڑے طے کریں گے نظر ثانی پٹیشن بلا وجہ ٹکراﺅ بڑھانے کی کوشش ہے ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں