ملک کے مفاد میں لیا گیا فیصلہ !
بھارت نے آسیان ممالک کی مجوزہ مکت تجارت سمجھوتے آر سی پی ،یجنل جامع معیشت پارٹر شپ میں شامل نہ ہونے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے اسے دیش کے کسانوں او چھوٹے کاروباریوں کے حق میں ایک بڑی کامیابی کی نظر سے دیکھا جانا چاہیے ۔آسیان کے دس ممالک اور اس کے چھ ساتھی ملکوں ،چین جاپان ،ساﺅتھ کوریا،بھارت ،آسٹریلیا،اور نیوزی لینڈ کے درمیان مجوزہ سمجھوتے کے وجود میں آنے پر یہ دنیا کا سب سے بڑا وعدہ کاروبار سمجھوتہ بن جائے گا ۔اس کے دائرے میں تقریبا پچاس فیصدی عالمی معیشت آجائے گی ،اس سے ہی آر سی ای پی کے اہمیت اور اس کے نہ صرف اس میں شامل ہونے والے ملکوں بلکہ عالمی سطح پر پڑنے والے اثرات کو سمجھا جا سکتا ہے ۔بینکاک میں ہوئی میٹنگ میں بھارت کو چھوڑ کر پندرہ ملکوں نے اس پر بات چیت پوری کر لی ہے اور بھارت کے لئے دروازے کھلے رکھے ہیں ۔بہر حال بھارت اس میں شامل ہونے سے پہلے اپنے مفادات کو یقینی کرنا چاہتا ہے ،بھارت کا اعتراض خاص طور سے اس بات کو لے کر ہے کہ اس کے موجودہ خاکے میں وجود میں آنے سے 80سے 90فیصدی چیزوں کی درآمدات ٹیکس ختم ہو جائے گا ،جس سے چین اپنے سامان سے ہندوستانی بازاروں کو بھر دے گا اس سے چین کے ساتھ تجارت اور بڑھ سکتی ہے ۔اس سمجھوتے سے باہر نکل کر وزیر اعظم نریندر مودی نے دیش کے مفاد میں بڑا فیصلہ لیا ،کانگریس نے اسے اس بنیاد پر اپنی جیت بتایا ہے کہ پارٹی اس فیصلے کے خلاف تھی آر سی ای پی سمٹ کے بعد شام کو بھارت کے وزارت خارجہ کی سیکریٹری (سابق )وجے ٹھاکر سنگھ نے بتایا کہ شرطیں موزوں نہ ہونے کے سبب قومی مفادات کو ذہن میں رکھتے ہوئے بھارت نے اس میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیا ،انہوںنے سمٹ میں پی ایم مودی کی طرف سے دیا گیا بیان بھی پڑھا جس میں انہوںنے گاندھی جی کے جنتر اور اپنی ضمیر کے سبب یہ فیصلہ لینے کی بات کہی تھی اس موزوں پر رائے زنی کرتے ہوئے وزیر اعظم نے بتایا کہ ہندوستانیوں خاص کر سماج کے کمزور طبقوں کے لوگوں اور ان کی گزر بسر پر ہونے والے اثر کے بارے میں سوچ کر یہ فیصلہ لیا ،انہیں مہاتما گاندھی کی اس نصیحت کا خیال آیا جس میں انہوںنے کہا تھاکہ سب سے کمزور اور سب سے غریب شخص کا چہرا دیکھو،اور سوچو جو قدم اُٹھانے جا رہے ہو اس کا انہیں کوئی فائدہ پہنچے گا بھی یا نہیں ؟بھارت میں کافی عرصے سے تشویش جتائی جا رہی تھی کہ کسانوں اور تاجروں کی انجمنوں نے اس کا یہ کہتے ہوئے مخالفت کی تھی کہ اگر بھارت اس میں شامل ہوا تو پہلے سے پریشان چھوٹے تاجر و کسان تباہ ہو جائیں گے ،بلا شبہ آسیان اور آر پی ای سی میں مجوزہ ممالک کے ساتھ بھارت کا رشتہ باہمی ہے ۔لیکن جب تک بازار کی پہنچ اور سروسیز میں توازن نہیں بنتا اس لئے رشتے میں یہ مضبوطی نہیں آسکتی ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں