پنجرے میں ٹائیگر سلمان خان
ہندی فلموں میں جیسے ڈرمائیت ہوتی ہے اکثر ایسا اصل زندگی میں نہیں ہوتا۔ اس کا احساس بالی ووڈ ستارے سلمان خان کو ہورہا ہوں گا جنہیں 20 سال پہلے کالے ہرن کے شکار سے متعلق مقدمہ میں جودھپور کی ایک عدالت نے پانچ سال کی سزا سنا ئی ہے۔ سلمان کو سنائی گئی سزا سے فطری طور پر یہ ہی پیغام گیا ہے کہ دیش کے قانون سے اوپر کوئی نہیں ہے۔ سلمان خان کو ہوئی پانچ سال کی سزا جتنا حیران نہیں کرتی اس سے زیادہ کہیں ہندوستانی عدلیہ نظام کے بارے میں سوچنے کو مجبور کرتی ہے۔ یہ سزا اس20 سال پرانے معاملہ میں ہوئی ہے جب ایک فلم ’’ہم ساتھ ساتھ ہیں‘‘ کی شوٹنگ کے دوران سلمان خان اپنے ساتھیوں سیف علی خان، نیلم، سونالی بیندرے اور تبو کے ساتھ شکار پر نکلے تھے۔ الزام ہے کہ اس شکار کے دوران انہوں نے ایک چنکارا اور دو کالے ہرنوں کا شکار کیا تھا۔ چنکارا اور کالے ہرن دونوں ہی نایاب جنگلی جانوروں کے زمرے میں آتے ہیں اور ان کا شکار کرنا غیر قانونی ہے۔ سلمان خان کو سزا سنانے کے ساتھ حراست میں لیا گیا تھا البتہ عدالت نے اس معاملہ میں دیگر چار ملزمان سیف، تبو، سونالی اور نیلم کو بری کردیا۔ سلمان کو سزا ان کے چاہنے والوں کے لئے اور تمام فلم صنعت کے لئے بہت بڑا دھکا ہے۔ بالی ووڈ کی تشویش کی وجہ ہے کہ سلمان کی تین فلمیں پوری نہیں ہوئی ہیں جن میں 400 کروڑ روپے داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔ سلمان خان پر جودھپور میں مقدمے دائر ہوئے تھے۔ ایک معاملہ میں انہیں نچلی عدالت سے پانچ برس کی سزا سنائی گئی ہے مگر ہائی کورٹ سے وہ بری ہوگئے۔ ایک دوسرے معاملہ میں ایک سال کی سزا ہوئی جسے ہائی کورٹ نے منسوخ کردیا۔ یہ دونوں معاملہ سپریم کورٹ میں التوا میں ہیں۔ دس سال پہلے بھی سلمان خان اسی معاملہ میں تین بار 6-6 دنوں کے لئے جیل جا چکے ہیں۔ 1998اور پھر اپریل 2006 اور جنوری2017 اب اپریل 2018۔ یہ چوتھی بار ہے جب پچھلے 20 برسوں میں 19 دنوں کے لئے جیل گئے۔ سلمان خان کا عدالتوں سے پرانا رشتہ رہا ہے۔ 2002 میں ہٹ اینڈ رن (مارکے بھانگنا) سے متعلق انہیں ہائی کورٹ نے انہیں بھلے ہی بری کردیا ہے لیکن اسے سپریم کورٹ میں چنوتی دی جاچکی ہے۔ عام طور پر کامیاب اور مشہور لوگ یہ مان کر چلتے ہیں کہ لوگ ان کی جھلک پانے کے لئے پاگل دکھائی پڑتے ہیں لہٰذا وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ سماج اور انتظامی مشینری ان کی غلطی کو اپنے آپ نظرا نداز کردے گی۔ ایسے لوگ اپنے لئے ہر سطح پر خاص چھوٹ کی توقع رکھتے ہیں جو اکثر انہیں مل جاتی ہے لیکن انہیں سمجھنا چاہئے کہ سماج ان کا غلام نہیں ہے۔ لوگ انہیں اپنا ماڈل ضرور مانتے ہیں اور ان کے ہر رویئے کی نقل کرتے ہیں ا س لئے ان کی یہ جوابدہی بنتی ہے کہ وہ ایسا کچھ نہ کریں جسے لوگ غلط مثال کی طرح اپنانے لگیں۔ انہیں قاعدے قانون کی تعمیل کرنی چاہئے۔ اپنے ساتھیوں سے اچھے رشتے بنانے چاہئیں۔ عام طور سے ایسا کوئی بیان نہیں دینا چاہئے جس سے سماج میں شورش پھیلے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ سلمان معاملہ سے دیش کے دوسرے ستارے بھی سبق لیں گے۔ مگر نیست و نابود ہورہے جانوروں کے زمرے میں رکھے گئے دو جانوروں کا شکار کرنے کے معاملہ کو دلائل کی حکمت عملی تک لے جانے کے لئے کوئی کثر باقی نہیں رکھی گئی۔ بشنوئی سماج کے لئے کالے ہرنوں کی بڑی اہمیت ہے۔ وہ مانتے ہیں کالے ہرن کی شکل میں ہی ان کے دھارمک گورو بھگوان جگنیشور کا پنر جنم ہوا جنہیں جانبازی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ پتہ نہیں آخر سلمان ان چار معاملوں میں بری ہوتے ہیں یا ان کو سزا ملتی ہے لیکن اس کا پیغام ہے ہم کسی بھی سبب جنگلی جانوروں کا شکار نہ کریں۔ صرف قانون کے ڈر سے ہی نہیں جانوروں کا درکار تعداد میں زندہ رہنا حالات کے توازن کے لئے ضروری ہے۔سلمان خان کو شکار کرتے وقت اسے سخت قانین کا پتہ تھا یا نہیں یہ کہنا مشکل ہے مگر اتنے برسوں میں انہیں مقدمے کا جس طرح سامنا کرنا پڑا اور کچھ وقت جیل میں بھی گزارنا پڑا اس کے بعد دیش کے ایک ایک شخص کو یہ پتہ ضرور چل گیا ہوگا کہ جنگلی جانوروں کا شکار کرنا ایک بڑا جرم ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں