اپوزیشن کا موازنہ جانوروں سے کرنا توہین آمیز ہے

بھارتیہ جنتا پارٹی کے 38 ویں یوم تاسیس فنکشن میں پارٹی کے صدر امت شاہ کے اپوزیشن کے اتحاد کے بیان پر ہنگامہ تو مچنا ہی تھا کیونکہ انہوں نے بات ایسی کہہ دی ۔ پنچ تنتر کی کہانی کی مثال دیتے ہوئے امت شاہ کا کہنا تھا جب باڑھ آتی ہے اور سارے پیڑ پودے بہہ جاتے ہیں تو صرف ایک پیڑبچ جاتا ہے۔ ایسے میں سانپ ،نیولا، کتا، بلی، چیتا سب ایک ہوجاتے ہیں اور پیڑ پر چڑھ کر اپنی جان بچاتے ہیں۔ کٹردشمنی کا ان جانوروں کا کردار مصیبت کے وقت بدل جاتا ہے۔ ہماری رائے میں امت شاہ کو اپنے سیاسی حریفوں کے لئے ایسے الفاظ کا استعمال کرنا زیب نہیں دیتا۔ اگر آج اپوزیشن کی اس مثال پر تمام اپوزیشن بھاجپا پر حملہ آور ہوگئی ہے تو اس میں کوئی تعجب نہیں۔ کانگریس صدر راہل گاندھی نے اپوزیشن کا موازنہ جانوروں کے ساتھ کرنے پر امت شاہ کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ اس توہین آمیز بیان سے ان کی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے جس میں دلت، قبائلیوں ، اقلیتوں اور یہاں تک کہ ان کی پارٹی کے نیتاؤں کو بیکار سمجھا گیا ہے۔ راہل نے کہا امت شاہ پوری اپوزیشن کو جانور کہہ رہے ہیں اور بھاجپا آر ایس ایس کا بنیادی نقطہ نظر ہے۔ اس دیش میں صرف دو غیر جانور ہیں ایک شری نریندر مودی اور دوسرے شری امت شاہ۔آئین کے تحت ہر کسی کو بولنے کی آزادی کا حق ہے لیکن کسے کب کیا اور کیسے بولنا ہے یہ سمجھداری آج تک زیادہ تر نیتاؤں میں نہیں نظر نہیں آئی۔ پبلک اسٹیج پر دیش پر حکمراں پارٹی کے قومی صدر کا ایسا بیان سن کر یقین نہیں ہوتا۔ دوبارہ تبارہ سن کر بھی یقین نہیں ہوتا لیکن امت شاہ کا کانفیڈنس ایسا ہے کہ اس کے بعد پریس کانفرنس میں جب ان سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ انہوں نے ایسا کن لوگوں کے لئے کہاں تب وہ کہتے ہیں میں نے سانپ اور نیولے کی مثال اس لئے دی کیونکہ وہ عام طور پر اکٹھا نظر نہیں آتے۔ نظریات سے پرے پارٹی مودی جی کی لہر کے سبب اکٹھا ہورہے ہیں انہیں برا لگا ہو تو میں نام بتادیتا ہوں۔ سپا۔ بسپا، کانگریس ۔ترنمول کانگریس، نائیڈو اور کانگریس۔ ویسے یہ ٹھیک بات ہے کہ سپا۔ بسپا ایک دوسرے کی مخالفت کے لئے جانی جاتی رہی ہیں لیکن سیاست میں ایک دوسرے کی مخالفت کرنے والوں کا کوئی بھی گٹھ بندھن پہلی بار تو بھارت میں نہیں بن رہا ہے۔ نریندر مودی کی مرکزی سرکار اور 20 ریاستوں میں بی جے پی کی سرکاروں کا ایک سچ یہ بھی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا قریب44 پارٹیوں سے اتحاد چل رہا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ سبھی ساتھیوں کا بھاجپا کی پالیسوں کی حمایت ہو۔ امت شاہ کو شاید یہ یاد نہیں رہا کہ دیش میں اندرا گاندھی کے خلاف 1977 میں پوری اپوزیشن متحد ہوئی تھی۔ اس اتحاد میں جن سنگھ کے اٹل بہاری واجپئی بھی ہوا کرتے تھے۔ لیفٹ پارٹیاں بھی تھیں۔ سیاسی نیتاؤں میں اس کی گنجائش ہمیشہ رہی ہے کہ لوگ چناؤ جیتنے کے لائق اتحاد بناتے رہے ہیں۔ امت شاہ کا سیاسی تجربہ دو دہائی سے بھی زیادہ کا ہو چکا ہے لہٰذا یہ تو نہیں مانا جاسکتا کہ یہاں ان کی زبان پھسل گئی ہو۔ ویسے بھی جو بھی تقریر پڑ رہے تھے وہ تحریری تھی۔ حالانکہ پچھلے ایک مہینے میں ایک بار ان کی زبان پھسلی ہے جب کرناٹک میں انہوں نے اپنے ہی سابق وزیر اعلی کو ریاست کا سب سے کرپٹ وزیر اعلی بتا دیا تھا اس کے بعد کرناٹک کی ہی ایک چناوی ریلی میں ان کی تقریر کا ترجمہ ایسا ہو گیا کہ مودی جی دیش کو برباد کردیں گے ، تو ایسا لگ رہا ہے کہ2019 کے عام چناؤ کی آنچ امت شاہ پر پڑنے لگی ہے اس آنچ کی تاپ کو اپوزیشن اتحاد کی خبروں میں بڑا بنا دیا ہے۔اپوزیشن کے اتحاد کوایک دوسرے طریقے سے بھی سمجھا یا جاسکتا تھا لیکن شاہ نے جو مثال دیکرسمجھانے کی کوشش کی ہے وہ افسوسناک ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!