بڑھتامیٹرو کرایہ اور مسافروں کی گھٹتی تعداد

دہلی میٹرو کے کرایہ میں اضافہ کا اثر مسافروں کی تعداد پر پڑنا یقینی تھا۔ تمام مخالفتوں کے باوجود میٹرو نے کرایہ بڑھادیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میٹرو میں سفر کرنے والوں میں متبادل کا استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ زیادہ تر نے بسوں میں سفر کرنے بہتر سمجھا۔اکتوبر میں کرایہ بڑھنے کے بعد سے میٹرو سے روزانہ سفر کرنے والے لوگوں کی تعداد میں قریب تین لاکھ کی کمی آئی ہے، اس کا انکشاف ایک آر ٹی آئی سے ہوا ہے۔ ستمبر میں روزانہ قریب 27.7 لاکھ مسافروں کو سفر کرانے والی میٹرو سے اکتوبر میں روزانہ اوسطاً 24.2 لاکھ لوگوں نے سواری کی۔ حالانکہ ڈی ایم آر سی کا دعوی ہے مسافروں کی تعداد میںآئی کمی کا کرایہ اضافہ سے کوئی سیدھا تعلق نہیں ہے۔ آر ٹی آئی سے موصول اطلاع کے مطابق اکتوبر کے کرایہ میں اضافہ کا اثر سبھی لائنوں پر پڑا ہے۔ مئی کے بعد میٹرو نے یہ اضافہ دوسری بار کیا تھا۔میٹرو کرایہ کو لیکر پھر مرکز اور دہلی سرکار کے درمیان زبانی جنگ شروع ہوگئی ہے۔ میٹرو میں یومیہ مسافروں کی تعداد 3 لاکھ گھٹنے پر وزیر اعلی اروند کیجریوال نے سنیچر کو طنز کستے ہوئے کہا کہ بھاڑا بڑھنے سے میٹرو ختم ہوجائے گی۔ دہلی نے عام لوگوں نے میٹرو کا استعمال بند کردیا تو اس کا کیا مطلب رہ جائے گا۔
میٹرو میں ہواکرایہ اضافہ میٹرو کو ہی خاک کردے گا۔دہلی سرکار میٹرو کے کرایہ میں اضافہ کے خلاف تھی لیکن مرکز نے دہلی سرکار کی نہیں مانی ساتھ ہی ان بڑھے ہوئے اضافہ کی شرحوں کو واپس لینے کی بھی دہلی سرکار نے سفارش کی تھی تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ میٹرو کا استعمال کرسکیں۔ معاملہ میں دہلی سرکار کی طرف سے سیدھے مرکزی سرکار کو کئی خط بھیجے گئے تھے۔ دوسری طرف مرکزی وزیر ہردیپ پوری نے دعوی کیا کہ مسافروں کی تعداد میں کمی کو پچھلے ماہ ہوئے کرایہ میں اضافہ سے نہیں جوڑا جاسکتا۔ مرکزی اربن ڈولپمنٹ وزیر نے کہا کہ ڈی ایم آرسی کا کرایہ دنیا میں سب سے کم ہے۔ پوری نے کہا سال 2016 میں ستمبر سے اکتوبر تک مسافروں میں 1.3 لاکھ کی کمی آئی تھی اور اس وقت کرایہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی۔ سال میں کچھ ماہ ایسے ہوتے ہیں جب مسافروں کی تعداد میں اضافہ اور کمی ہوتی ہے۔ آج دہلی میٹرو بہت اہم بن چکی ہے۔ آلودگی کی مار سے بچنے کے لئے بہت سے لوگ میٹرو کا ہی سہارا لیتے ہیں۔ چوطرفہ بڑھتی مہنگائی کے سبب بھی میٹرو کرایہ میں اضافہ جنتا کو چبھ رہا ہے۔ بہتر ہوتا کہ دہلی میٹرو اور دیگر اقدامات سوچے جس سے اس کا خسارہ بھی پورا ہوجائے اور جنتا پر بوجھ بھی نہ پڑے۔ جب تک سری دھرن تھے سب ٹھیک تھا ،ان کے جانے کے بعد میٹرو کی کارگزاری میں بھی کمی آئی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!