وسندھرا راجے سرکار کا ہٹلری فرمان

سرکاری حکام اور ملازمین کو رعایت دینے والا جوآرڈیننس راجستھان کی وسندھرا راجے سرکار لائی ہے اس پر احتجاج ہونا فطری ہی ہے۔ حکومت نے آئی پی سی کی سزا دفعہ اور انڈین آئی پی سی میں ترمیم کی ہے جس کے بعد جج ، مجسٹریٹ و سرکاری ملازمین کے خلاف پریوار واد پر نوٹس لینا ، پولیس جانچ یا معاملہ کی میڈیا رپورٹنگ سے پہلے سرکار سے منظوری لینی ہوگی۔ پیر کو راجستھان اسمبلی کا سیشن شروع ہوتے ہی ریاستی وزیر داخلہ گلاب چند کٹاریہ نے یہ بل ایوان میں پیش کیا۔ راجستھان سرکار کے اس بل کی حمایت کرنا مشکل ہے۔ اس کے بعد اب موجودہ اور سابقہ ججوں ، مجسٹریٹوں اور سرکاری ملازمین کے خلاف پولیس یا عدالت میں شکایت کرنے کے لئے سرکار کی اجازت لینی ہوگی۔ ڈیوٹی کے دوران اگر سرکاری ملازم یا ملازمین کے خلاف کوئی شکایت کی جاتی ہے تو ریاستی حکومت کے بغیر ایف آئی آر درج نہیں ہوسکتی۔ اس کے لئے 6 مہینے کا وقت دیا گیا ہے۔ سب سے تعجب کی بات یہ ہے کہ پابندی میڈیا پر بھی نافذ ہوگی۔ سرکار کی اجازت کے بغیر اگر کوئی اس بارے میں کچھ شائع کرتا یا دکھاتا ہے تو دو سال کی سزا کی گنجائش ہے۔اس آرڈیننس جسے راجستھان حکومت قانونی شکل دینا چاہتی ہے، پر کئی سوال کھڑے ہوتے ہیں ایک تو یہی کسی ملازم کے خلاف شکایت ہونے پر جانچ کے لئے چھ مہینے کا وقت کیوں ملنا چاہئے؟ اس دوران تو ملزم سرکاری افسر اپنے خلاف سارے ثبوت مٹا ڈالے گا۔ اس سے تو کرپٹ ملازمین کی الٹے مفادات کی حفاظت ہوگی کیونکہ اگلے سال راجستھان میں اسمبلی چناؤ ہونے ہیں ایسے میں اس طرح کا آرڈیننس لاگو کرنے کا مقصد کرپشن کو جائز شکل دینا بھی ہوسکتا ہے اور اپنی ساکھ پاک صاف بنائے رکھنا بھی۔جب کرپشن کے معاملے سامنے نہیں آئیں گے تو وسندھرا سرکار کو فطری طور پر اس کا چناوی فائدہ ملے گا۔ یہی نہیں اس مجرمانہ قانون (راجستھان ترمیم) آرڈیننس 2017 کے مطابق کوئی بھی مجسٹریٹ کسی بھی ایسے شخص کے خلاف جانچ کا حکم نہیں دے گا جو ایک جج یا مجسٹریٹ یا سرکاری کرمچاری ہے یا تھا۔ آخر ایسے آرڈیننس (بل) کا جواز کیا ہے؟ سرکار کی دلیل ہے اس سے سرکاری ملازمین بے خوف ہوکر اپنی ذمہ داری کی تعمیل کرسکیں گے۔ مقدموں کے خوف سے سرکاری حکام ،ملازم عام طور پر فیصلہ کرنے سے بچتے ہیں لیکن سرکاری ملازمین کو ان کی ذمہ داری کی تعمیل میں بیباکی کے لئے سرکار بننے کے قریب چار سال بعد آرڈیننس کی ضرورت آخر کیوں پیش آئی۔ کہا جارہا ہے کہ سرکاری حکام نے اس کی مانگ وزیر اعلی کے سامنے رکھی تھی۔ کیا اس کا مطلب ہے کہ ان چار برسوں میں سرکاری حکام اور ملازمین نے اپنی ذمہ داری ٹھیک طرح سے نہیں نبھائی؟ ایسے وقت جب دیش میں یہ ماحول ہے کہ جو سرکاری افسر یا ملازم جنتا کی خدمت کی اپنی ذمہ داری کو ٹھیک سے تعمیل نہیں کرتے، وقت پر اپنا کام پورا نہیں کرتے، معمولی کام کے لئے بھی کئی افسر پیسے کی مانگ کرتے ہیں۔ انہیں سزا دی جانی چاہئے یا انہیں تحفظ دیا جانا چاہئے؟ وسندھرا راجے سرکار کا یہ قدم الٹی گنگا بہانے والا ہے۔ پی یو سی ایل (پیپلز یونین فار سول لیبرٹیز) اس آرڈیننس کے خلاف عدالت میں جا رہی ہے۔ یکایک قانونی ماہر ہی مانتے ہیں کہ یہ قانون و بل قانون کی کسوٹی پر نہیں ٹکے گا۔ پریس کی آزادی پر بھی سوال ہے۔ راجستھان سرکار پریس کو بھی اپنی ڈیوٹی کرنے سے روکنا چاہتی ہے۔ ایڈیٹرز گلڈ نے بھی اس کی سخت تنقید کی ہے۔ شکایت کو لیکر میڈیا کے پاس جانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ آرڈیننس کسی بھی معاملے میں متعلقہ افسر یا ملازم کے نام پر پتہ ،تصویر اور خاندان کی جانکاری کی اشاعت اور پبلسٹی تک پر روک لگاتا ہے۔ اس کی خلاف ورزی کرنے والے کو دو سال کی سزا ہوسکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی اخبار کسی سرکاری ملازم کے بارے میں کچھ چھاپتا ہے یا ٹی وی پر دکھاتا ہے تو وہ سزا کا حقدار ہوگا۔ اتنے وسیع تحفظ سے تو وہ اور بے اثر ہوں گے۔ ویسے بھی یہ جمہوری سسٹم کے خلاف ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!